آپریشن اوپیرا ۔۔۔ جب صدام حسین نے حود کو صلاح الدین ایوبی کا جانشین ڈیکلیئرکیا۔

قارئین آج کی اس تحریر میں ھم دنیا کی انتہائی سفاک اور بہترین خفیہ ایجنسی موساد کے اس آپریشن کی بات کریں گے جسے “آپریشن اوپیرا” کا نام دیا گیا اور دنیا کی تاریح میں بغیر کسی جنگ یا اشتعال کے ایک ملک اسرائیل نے دوسرے ملک عراق کی سرحدی حود مختاری اور فضائی حدود کی شدید خلاف ورزی کرتے ہوئے عراق کے اندر کئی سو کلو میٹر تک گھس کر آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی مدد سے اُس کے ایٹمی ری ایکٹر ’اوسیراق‘ پر فضائی حملہ کر کے اُسے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔

اسرائیل اگر وہ حملہ نہ کرتا تو عراق مرد آہن صدام حسین کی قیادت میں یقینی طور پر جوہری ہتھیار تیار کر لیتا۔اس حملے میں جوہری پلانٹ چلانے والا ایک جونیئر فرانسیسی اہلکار اور دس عراق فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل نے اس حملے کے لیے اتوار کے دن کا انتحاب کیا کیونکہ اس دن مسیحی افراد کام سے چھٹی کرتے ہیں۔ حملے کے وقت اس پلانٹ میں کم از کم 25 پاؤنڈ افزودہ یورینیم موجود ہونے کی اطلاع تھی۔

عراقی خبر رساں اداروں نے اس حملے کی خبر اُس وقت تک نہیں دی جب تک اسرائیل نے حود حملے کی ویڈیو نشر نہیں کی تھی۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بیگن کے حکم پر ’اسرائیل کے ان گنت ایف 16 اور ایف 15 لڑاکا بمبار طیاروں نے بغداد سے 18 میل دور اس کار وائی میں حصہ لیا تھا۔
سات جون کو سہ پہر چار بجے اسرائیل کے زیر قبضہ صحرائے سینا میں ایٹیزن ایئرپورٹ سے آٹھ ایف 16 طیارے اوسیراق ری ایکٹر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ طیاروں کی اڑان کی جگہ سے ہدف تک کا راستہ چھ سو میل لمبا تھا جو اردن کے جنوبی حصے اور سعودی عرب کے شمالی علاقے سے گزرتا ہوا عراق تک جاتا تھا۔ پائلٹوں نے اردن، سعودی، اور عراقی ریڈار سے بچنے کے لیے زمین سے تین سو فٹ سے بھی کم نیچے پرواز کی ۔ اسرائیلی طیارے شام 5:30 بجے عراق میں اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔

ہدف کے قریب پہنچ کر آٹھ ایف 16 طیارے ایک ہزار فٹ کی بلندی تک اوپر آئے، اپنی پوزیشن ہدف کے مطابق تبدیل کی اور اپنے بموں کو پینتیس ڈگری کے زاویے سے زمین پر گرانا شروع دیا۔ ایک کے بعد ایک ہر ایف 16 طیارے نے ری ایکٹر کے ٹھوس کنکریٹ کے گنبد پر ایک ایک ٹن وزن کے دو دو بم گرائے۔ یہ دنیا میں کسی جوہری ری ایکٹر پر پہلا حملہ اور کسی جوہری مرکز یا تنصیب پر تیسرا حملہ تھا۔

صدر صدام حسین نے اُس وقت اعلان کیا تھا کہ جوہری ری ایکٹر ایران کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف ہے۔ یہ کسی بھی جوہری ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے حملے کی پہلی مثال تھی جس کا بظاہر مقصد جوہری ہتھیار کو بننے سے روکنا تھا۔
اس حملے سے عراقی بالکل گھبرا گئے کیونکہ حملہ اچانک تھا۔ حملہ کرنے والے طیاروں پر ایک میزائل بھی فائر نہیں ہوا۔ آج بھی ساری دنیا کے دفاعی تجزیہ نگار اس بات پے حیران ہیں کہ توقع کے برعکس، واپسی کے راستے میں اسرائیلی طیارے نہ ہی اینٹی ایئرکرافٹ فائر کا نشانہ بنے اور نہ کوئی زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائیل ان کی جانب داغا گیا۔ تمام طیارے بحفاظت واپس اسرائیل پہنچ بھی گئے۔ تقریبن ساڑھے ستائیس کروڑ ڈالر کی یہ جوہری تنصیب تکمیل سے صرف چند مہینے دور تھی۔

مگر اسرائیل کے اس بھر پور حملے نے بغداد کو جوہری طاقت بننے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا۔ عراق نے حملے کے فوراً بعد اپنے ردعمل میں پہلے تو اس حملے کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا لیکن جب ساری دنیا کو ناقابلِ تردید حقائق کا علم ہو گیا تو عراق نے بھی تسلیم کر لیا کہ حملہ اسرائیلی طیاروں نے کیا تھا۔ اس حملے کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل کی صرف برائے نام کی مذمت کی۔ البتہ فرانس کے اسرائیل سے تعلقات کچھ عرصے کے لیے کشیدہ رہے۔ اسرائیل کی یہ بمباری بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے ایک غیر قانونی کارروائی تھی۔ بعد میں جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے نے اسرائیل کی سرزنش کے ساتھ ساتھ اسرائیل سے اپنی جوہری تنصیبات کی انسپیکشن کا مطالبہ بھی کیا، جسے اسرائیل نے نهايت دیدہ دلیری سے نظرانداز کر دیا۔ یہ ایک بہت ہی غیر معمولی کارروائی تھی امکانات کے لحاظ سے شائد ھی دنیا کی کوئی دوسری فضائیہ ایسا کام سرانجام دے سکتی هو۔

عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی نے اسرائیل کو اتنا بے خوف کر دیا کے اس نے عراق کے بعد سنہ 2007 میں بمباری کر کے ایک اور اسلامی ملک شام کا مبینہ جوہری پروگرام بھی تباہ کر دیا تھا۔ عراق کے جوہری منصوبے کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے سب سے پہلے اسرائیلی کے انٹیلیجینس ایجنٹوں نے چھ اپریل سنہ 1979 میں فرانس کی بحیرہِ روم کی بندرگاہ تولون پر موجود ایک عراقی شپمینٹ پر بم حملہ کر کے اوسیراق کے لیے توسیعی پلانٹ کو تباہ کر دیا، جس سے اس منصوبے میں دو برس کی تاخیر ممکن ہو پائی۔ اسرائیلیوں کے تجزیے کے مطابق فرانس اپنا نیوکلیئر پلانٹ عراق کے ایک ایسے صدر (صدام) کو فروخت کر رہا تھا جو اپنے آپ کو صلاح الدین ایوبی کا جا نشین سمجھتا تھا۔

سلطان نے بیت المقدس پر حملہ کر کے یہودیوں کی حکومت ختم کی تھی۔ اسرائیل صدام حسین کو اپنے وجود اور سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتا تھا۔اسرائیل نے صدر صدام حسین کو کمزور کرنے کے لیے سنہ ساٹھ کی دہائی سے ان کے مخالف گروہ یعنی کردوں کو مدد مہیا کرنا شروع کر دی تھی۔ اسرائیلی انٹیلیجینس ایجنسیوں اور اسرائیلی فوج نے کردوں کے مختلف گروہوں کو گوریلا جنگ کی تربیت بھی دی ، لیکن یہ سب کچھ عراق کو کمزور کرنے میں ناکام رہے۔ کردوں نے اسرائیل سے مدد مانگی تھی کہ وہ صدام حسین کو قتل کرنے میں اُن کی اُسی طرح معاونت کرے جس طرح اُس نے مصری انٹیلیجینس کے سربراہ کو سنہ 1956 میں قتل کیا تھا۔

صدام حسین سنہ 1971 میں ہی عراق کے ایک طاقتور لیڈر بن چکے تھے،تاہم ایران میں اسلامی انقلاب کی وجہ سے انھوں نے حسن البکر کو معزول کیا اور خود عراق کے صدر بن گئے۔ صدام حسین ’یہودیوں کو ماضی کی قوموں کی باقی ماندہ غلاظت‘ سمجھتے تھے۔ صدام حسین کی کوشش تھی کہ اس کے پاس ایسا اسلحہ ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اُسے ایک حقیقی خطرہ سمجھا جائے۔ اسی لیے انھوں نے سنہ 1973 سے ہی عراق کو جوہری طاقت بنانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔

صدر صدام حسین نے ستمبر سنہ 1975 میں فرانس سے جوہری پاور پلانٹ خریدنے کا منصوبہ بنایا جو کہ کسی بھی عرب ملک کی جانب سے جوہری ری ایکٹر حاصل کرنے کی پہلی کوشش تھی۔ صدام حسین نے اس جوہری پلانٹ کے حصول کے لیے دو ارب ڈالر کی ایک خطیر رقم دی اور ساتھ ساتھ فرانس کو مارکیٹ سے کم نرخوں پر تیل بھی فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔اس پس منظر میں اسرائیل نے فرانس اور عراق کے جوہری منصوبے میں بڑھتے ہوئے تعاون کو اپنے وجود کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور اسے روکنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دیں۔

اسرائیل نے اپنی انٹیلیجینس ایجینسی موساد اور وزارت خارجہ کے اشتراک سے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جسے ’نیا دور‘ کا خفیہ نام دیا گیا۔ اس دوران اسرائیل نے اپنی جاسوسی کے ذریعے عراق کے جوہری منصوبے میں کام کرنے والے کچھ ایسے اہلکاروں کو خرید لیا تھا جن کی وجہ سے اُسے یہاں ہونے والی ہر پیش رفت سے مکمل آگاہی ہوتی رہتی تھی۔ بل آخر اسرائیل نے عراق سائنسدانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔
موساد نے عراقی سائنسدان خضر حمزہ اور جعفر دیہا جعفر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جو کہ عراق کے جوہری منصوبوں کی قیادت کر رہے تھے۔یہ دونوں سائنس دان سنہ 1980 کی درمیانی شب پیرس کے ایک ہوٹل میں موساد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔اگرچہ اس قتل کے بعد باقی ماندہ سائنس دان زیادہ محتاط ہو گئے لیکن اسرائیلی جاسوسی اداروں نے بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ المشد کے قتل کے تین ہفتوں بعد عراق کے ایک اور جوہری سائنسدان سلمان راشد کو جنیوا میں موساد نے زہر دے کر قتل کر دیا۔

سلمان راشد قتل کے دو ہفتوں کے بعد عراقی سائنسدان عبدالرحمان رسول بھی پیرس میں زہر حوانی سے ہلاک ہو گئے۔ عبدالرحمان رسول کے قتل میں موساد کی ایک خاتون رکن، زپی لیونی کا بھی کردار تھا جو بعد میں اسرائیل کی وزیرِ خارجہ اور نائب وزیراعظم بھی بنیں۔ عراقی سائنسدانوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے عراقی جوہری پروگرام کو نقصان پہنچا۔ عراق میں کام کرنے والے فرانسیسی اور دیگر غیر ملکی سائنسدانوں میں خوف بھی بڑھ گیا اور ان میں سے کئی عراق سے فرار بھی ہو گئے۔ لیکن جوہری منصوبے اور تنصیبات پر کام بند نہیں ہوا۔ صدام حسین نے اسرائیل کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔

ان تمام حالات کے باوجود عراق کو یقین تھا کہ وہ جوہری منصوبے کی تکمیل میں کامیاب ہو جائے گا اور اسی وجہ سے اسرائیل کا خوف بڑھتا چلا گیا۔ موساد کو اندازہ هو گیا کہ سائنسدانوں کے قتل اور جاسوسی سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔بل آخر موساد نے اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن کو اکتوبر 1980 میں آگاہ کر دیا کہ ابھی تک اگر کوئی راستہ موجود ہے تو وہ صرف فضائی بمباری ہے یعنی باقاعدہ جنگی کارروائی اور یہ حملہ اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ اس کے بعد عراق کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو جائیں۔ تاریخ کا ایک اہم موڑ جس نے اسرائیل کو ایف 16 طیارے حاصل کرنے میں ایک حیران کن کردار ادا کیا۔

سنہ 1979 میں اسرائیل کی خوش بختی یہ ہوئی کہ ایران میں آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں اسلامی انقلاب نے امریکہ کے ایک اہم حلیف اور اتحادی شاہ ایران کو معزول کر دیا۔ خطے میں اس تبدیلی کے بعد امریکہ نے شاہ ایران کو دیے جانے والے طیاروں کا سودا یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ جس کی وجہ سے امریکہ نے اس وقت تیار ہونے والے 76 جدید ترین ایف 16 لڑاکا طیاروں کو ایران کے بجائے اسرائیل کو دینے کی پیشکش کی، جو اسرائیل نے فوراً قبول کر لی۔ اوسیراق کی تباہی کی یہ کارروائی مکمل کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اسرائیل نے اپنا ہدف حاصل کر لیا۔

عراق کا ری ایکٹر ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا۔ اور صدام حسین کے جوہری عزائم شاید مستقل طور پر ختم ہو گئے تھے۔ صدام نے حملے کے بعد عراقی بعث پارٹی کی قیادت سے اپنے خطاب میں بمباری کا ذکر آہیں بھرتے ہوئے نهايت افسوس اور دکھ کے ساتھ کیا۔ لیکن اوسیراق کے ری ایکٹر پر بمباری سے صدام کا بعد کا رد عمل اسرائیلی انٹیلیجینس کی توقع کے بالکل برعکس تھا۔ دباؤ میں آنے کے بعد صدام زیادہ جارحانہ اور زیادہ پرعزم ہو جاتے تھے۔

لہذا 40 کروڑ ڈالر کا منصوبہ 10 بلین ڈالر کا منصوبہ بن گیا اور اس میں چار سو سائنسدانوں کی تعداد بڑھ کر سات ہزار ہو گئی اور پھر شائد یہی ہمت و حوصلہ اور ہر قیمت پر ایٹمی ہتھیاروں کا حصول 2003 میں عراق پر امریکی حملے کااور پھر صدام حسین کی پهانسی کا بائیث بنا ۔اس حملے کے بعد اسرائیل نے اپنی دفاعی حمکت عملی میں ایک نئے نظریے کا اضافہ کیا جسے ’بیگن ڈاکٹرائین‘ کا نام دیا گیا۔ اس ڈاکٹرائین کے مطابق اسرائیل خطے میں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے کسی بھی ملک کو کسی بھی قیمت پر جوہری ٹیکنالوجی سے محروم رکھے گا۔

عراق اور شام میں زیر تعمیر جوہری ری ایکٹروں کے خلاف اسرائیل کے حملوں نے ری ایکٹروں کو بغیر کسی بڑے جانی نقصان کے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ موجودہ حالات میں اسرائیل بہت زیادہ فضائی طاقت اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہا ہے جس کے پاس فضائیہ نہیں ہے۔ اسرائیل شائد یہ بھول گیا ھے کے پیشہ ورانہ صلاحیت کا استعمال کمزور ممالک کے خلاف نہیں بلکہ برابر کے مخالف کے خلاف ہوتا ہے۔ی

ھاں آپ کو سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ بتاتے جائیں کے عراقی ایٹمی ریکٹر کی تباہی میں دو اسلامی ممالک سعودی عرب اور اردن بھی برابر کے شریک ہیں کیوں کہ انہی دونوں نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استمال کرنے کی مکمل اجازت دی۔ تبھی تو اسرائیلی طياروں نے چھ سو میل دور اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں