اُس عورت کو مرد کبھی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس عورت میں یہ دو خاص عادات ہوں
ہم جنہیں فوراً ایک آواز پر میسر رہتے ہیں انہیں کبھی اندازہ ہی نہیں ہو تا کہ انتظار کا دکھ کیا ہو تا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ وہ ہمیں بے وقوف کا خطاب دے کر خود کو حقیقت پسند کہلوا کر اپنے راستے انتہائی بد اخلاقی سے الگ کر لیتے ہیں نہ ہی انہیں کسی قسم کا افسوس ہو تا ہے اور نہ ہی شر مندگی کا احساس ہو تا ہے اگر کو ئی آپ سے محبت کر تا ہے تو اسے محبت کا جواب چاہے محبت سے نہ دیں مگر
اسے ایسے بھی ٹریٹ نہ کر یں کہ وہ کہے کہ محبت کر نا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے دس لوگوں میں سے ہو سکتا ہے نو لوگوں کو تم سے محبت ہو لیکن تمہیں اس دسویں شخص سے محبت ہو گی جو تم سے محبت نہیں کر تا . ہر ق ب ر کا حق ہے .کہ اس پر فاتحہ پڑھی جا ئے کچھ ق ب ر ہیں دل کے اندر بھی ہو تی ہیں مگر ان پر لگی مٹی اور جلتی اگر بتیاں کسی کو نظر نہیں آ تیں. کچھ لوگ محبت کے لیے بنے ہی نہیں ہو تے ہیں بس یہ ہی کوئی دو چار دن کسی کو اچھے لگ سکتے ہیں لیکن محبت ان کا مقدر نہیں ہو تی اور شاید میرا شمار بھی انہیں لوگوں میں ہے. اس عورت کو مرد کبھی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس میں یہ دو عادات ہوں. جس عورت میں یہ دو عادات ہو ں
وہ مرد کے نفس کی کمزوری بن جا تی ہے پہلی وہ جس میں وفا ہو. دوسر ی وہ جو مرد کے لیے سب کچھ چھوڑ آ ئی ہو. سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا .کہ ایک عورت کو ایک بلّی کی وجہ سے عذاب ہوا تھا جس نے اس کو پکڑ کر باندھا تھا، نہ اس کو کھانے کو دیا نہ اس کو چھوڑا. یوں ہی تڑپ تڑپ کر م ر گئی.اسی طرح جانور پال کر اس کے کھانے پینے کی خبر نہ لینا عذاب کی بات ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض مرد اور عورتیں ساٹھ برس تک خدا کی عبادت کرتے ہیں اور پھر جب موت کا وقت آتا ہے تو شریعت کے خلاف وصیت کرکے دوزخ کے قابل ہوجاتے ہیں. (مثلاً یہ کہ فلاں وارث کو اتنا مال دے دینا)وصیت کے مسئلے میں کسی عالم سے پوچھ کر اس کے موافق عمل کرے کبھی اس کے خلاف نہ کرے.
بعض لوگ تعلیم کو تو سب کے لیے ضروری سمجھتے ہیں مگر تربیت کو سب کے لیے ضروری نہیں سمجھتے، حالاں کہ تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی اہم ہے.درسی تعلیم فرضِ عین نہیں. بہت سے صحابہ علوم درسیہ سے خالی تھے مگر ان پر کبھی اس کو لازم نہیں کیا گیا اور تربیت یعنی تہذیبِ نفس ہر شخص پر فرضِ عین ہے.تعلیم سے مقصود ہی تربیت ہوتی ہے کیوں کہ تعلیم تو علم دینا اور تربیت عمل کرانا ہے اور علم سے مقصود عمل ہی ہے اور مقصود کا اہم ہونا ظاہر ہے.بہر حال تربیت تعلیم سے اہم ہے، اس سے قطع نظر کرنے کی اور ضروری نہ سمجھنے کی تو کسی حال میں گنجایش نہیں.