اپنی بیو ی کو کسی اور کا محتاج نہ بنائیں پھر ایسا نہ ہوکہ ۔۔۔؟ خاوند حضرات لازمی پڑھ لیں
ہماری کئی حسرتیں ہمارے اندرے ہی گھٹ گھٹ کر مرجاتی ہیں اور ہم اپنی خوبصورتی برقرار رکھ کر مسکراتے ہیں اندازہ ہی نہیں ہونے دیتے کہ ہم اندر سے کسی قدر بدصورتی سے توڑے گئے ہیں۔ صیغہ راز میں رکھیں گے نہیں عشق تیرا ہم تیرے نام سے خوشبو کی دوکاں کھولیں گے ۔ غ صہ ہمیشہ بے وقوفی سے شروع اور شرمندگی پر ختم ہوتا ہے۔ اچھا انسان وہ ہے جو کسی کا دیا ہوا دکھ تو بھولا دے ، لیکن کسی کی دی ہوئی محبت کبھی نہ بھولے۔ آج کا انسان دولت کو خوش نصیبی سمجھتا ہے ۔
اور یہی اسکی بدنصیبی کا ثبوت ہے۔ عشق میں مبتلا شخص کے مطابق دنیا کی کل آبادی صرف ایک شخص ہے۔ یہ میرا فرض بنتا ہے۔ میں ا س کے ہاتھ دھلواؤں سنا ہے کہ اس نے میری ذات پر کیچڑ اچھالا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں اگر اس روح زمین پر سارے پرد ہی ہوتے تو کیا یہاں کوئی رہنے کے لیے کوئی گھر بناتا یقیناً نہیں کیونکہ گھر گھر والی کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اگر اس زمین پر عورت نا ہوتی تو مرد کہیں بھی ڈیرہ لگا لیتا اکثر عورتیں کہتی ہیں کہ عورت کاکوئی گھر نہیں ہوتا۔ تو وہ غلط سوچتی ہیں گھر تو ہوتا ہی عورت کا ہے ۔ کیونکہ گھر کی ضرورت عورت کے لیے ہے مرد کا کیا ہے
وہ تو روث پر سوجاتا ہے اسے کسی پرائیویسی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ چھپا کر ہمیشہ خزانہ رکھاجاتا ہے۔ عورت ایک بیش قیمتی خزانہ ہے اور مرد اس کا محافظ ہے۔ لیکن افسوس اس خزانے کو اپنی قدر ہی نہیں ہے یہ چھپ کر رہنا نہیں چاہتی ۔ جب یہ نہیں چھپ کر رہنا چاہتی توعین ممکن ہے اس کا محافظ ہی اس کو لو ٹ لے۔ اپنی بیوی کو کسی اور کا محتاج نہ بنائیں۔ ہر ماہ بیو ی کا ذاتی خرچ لازمی دیا کریں۔ ہمارے معاشرے کے اکثر گھر وں میں یہ معاملہ پایا جاتا ہے ۔
کہ اگر بیوی شوہر سے جیب خرچ واسطے کچھ پیسوں کا مطالبہ کرے تو سامنے سے جواب ملتا ہے۔ کہ تم کیا کرو گی پیسوں کا ہر چیز تمہیں مل تو جاتی ہے۔ سب کچھ لا کر تو دیتا ہوں ، جو منگوانا ہو بتاد و میں لا دوں گا۔ فضول پیسے نہیں میرے پاس۔ مطلب دنیا بھر کی تقریریں شروع کردے گا مگر مجال ہے کہ کچھ پیسے نکال کر بیوی کے ہاتھ میں رکھ کر دوں کہ شاید اسے کچھ ضرورت ہو۔
پھر وہ بیچاری مجبو ر ہو کر کبھی اپنے ماں باپ کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہے، کبھی بہنوں سے سوال کرتی ہے تو کبھی دوستوں سے ادھار مانگتی ہے۔ واللہ ! میری سمجھ سے باہر ہے کہ شوہر حضرات یہ کیسے گوارہ کرلیتے ہیں ۔ کہ میری بیوی میرے ہوتے ہوئے دوسروں سے پیسے مانگتی پھرے۔ ظا ہر بات ہے کہ وہ بھی انسان ہے ، اس کی بھی ضروریات ہیں ، بحیثیت انسان اس کا بھی کہیں کچھ خرچ کرنے کادل کرتا ہے، اپنی پسند سے کوئی چیز خریدنے کا دل کرتا ہوگا، اپنے والدین ، بہن بھائی یا سہیلی وغیرہ کو کچھ دینے کا دل کرتا ہوگا۔ صدقہ خیرات کرنے کا دل کرتا ہوگا، کسی غریب کی مدد کرنے کا دل کرتا ہوگا، اس بات کا بھی دل کرتا ہوگا کہ کچھ پیسے میر ے پاس ہر وقت موجود رہیں ۔ جو کبھی بھی کسی مجبوری میں کام آجائیں۔