اگر وہ طبعی موت مر جاتا تو شاید بہت دکھ ہوتا، تین بہنوں کے اکلوتے انجینئیر بھائی کی موت پر ان کے والد نے ایسا کیوں کہہ دیا؟
دانش عالم جنہوں نے قائداعظم یونی ورسٹی سے سافٹ وئیر انجینئر کی ڈگری 2018 میں حاصل کی تھی اور تب ہی سے بٹ سول نامی ایک سافٹ وئیر کمپنی کے ساتھ بطور انجینئير کام کر رہے تھے۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا ان کے والد عاہم خان ایک سابق فوجی اور سوفٹ وئير ہاوس میں بطور سیکیورٹی گارڈ کام کرتے تھے – اللہ نے ان کو تین بیٹیوں کے بعد دانش عالم کی صورت میں بیٹے سے نوازہ تھا عالم خان کی خواہش تھی کہ چونکہ وہ خود تو نہیں پڑھ سکے مگر ان کے تمام بچے ضرور اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اسی وجہ سے انہوں نے اپنی تینوں بیٹیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی- مگر ان کا بیٹا دانش عالم چوتھی کلاس تک کسی بھی صورت پڑھنے کے لیے تیار نہ ہوا اس کی یہی ضد تھی کہ مجھے اپنے ساتھ اسلام آباد میں رکھیں میں وہیں پڑھوں گا- عالم خان کا یہ کہنا تھا کہ ان کا بیٹا باقی بچوں سے شروع ہی سے بہت مختلف اور محبت کرنے والا حساس بچہ تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو جب نوکری کی جگہ لے کر گئے جہاں وہ بطور گارڈ کام کر رہے تھے تو دانش کو اس بات پر بہت دکھ ہوا کہ ان کے والد سے کم عمر افسران چائے یا پانی لانے کو کہتے ہیں- اس پر عالم خان نے انہیں بتایا کہ یہ سب صرف تعلیم نہ ہونے کے سبب ہے اس بات کا دانش کو اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے تعلیم پر توجہ دینی شروع کر دی اور اس کے بعد سے ہمیشہ بطور صف اول کے طالب علم پوزیشن لی- یکم جولائی کو جب بٹ سول کی کمپنی کے تمام ملازمین سالانہ پکنک کے لیے شمالی علاقوں کی سیر کے لیے اسلام آباد سے نکلا راستے میں کاغان کے قریب انہوں نے لولو سر جھیل پر کچھ دیر کے لیے قیام کیا ۔ کمپنی کے سی ای او محمد جاوید کا کہنا تھا کہ جھیل کے کنارے ان کو ایک خالی بوتل نظر آئی جس کو دیکھ کر انہوں نے دانش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اتنی خوبصورت جگہ کو بھی کچرہ پھینک کر گندہ کر دیتے ہیں- ان کی بات سن کر اسی وقت دانش نے قمیض اتاری اور وہ بوتل جو کنارے پر چکنی مٹی میں تھی وہاں سے ہٹا دی اور خود کچھ دیر کے لیے ٹھنڈے پانی سے محظوظ ہونے لگا اسی دوران قریب ہی ایک اور ساتھی کا پیر پھسلا اور وہ سات سے آٹھ فٹ گہرے پانی میں جاگرا- دانش جن کے والد کا یہ کہنا تھا کہ کسی کو کبھی تکلیف میں دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتا تھا فوراً اس کی جانب بڑھا اور اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے رسی پکڑ کر ساحل کی طرف بڑھنے لگا- مگر پانی کی ٹھنڈک اور شدت نے دانش کے ہاتھوں پیروں کو سن سا کر دیا تھا اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کمپنی کے سی ای او محمد جاوید جو تیراکی جانتے تھے پانی میں آگے بڑھے اور انہوں نے ان دونوں کو پکڑنے کی کوشش کی دانش نے اس وقت ان کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کا سہارہ لے لیا ساحل پر سے پھینکی جانے والی رسی کے سہارے سخت ٹھنڈے پانی میں محمد جاوید نے آگے بڑھنا شروع کر دیا- اس وقت کے بارے میں محمد جاوید کا یہ بھی کہنا ہے کہ دانش جو ایثار و قربانی کی ایک مثال تھا اس نے یہ محسوس کر لیا کہ یہ رسی تین افراد کو سہارا نہیں دے سکتی ہے- اس وجہ سے اس نے اپنا بوجھ اور اپنا ہاتھ ان کے کاندھے سے ہٹا لیا تاکہ جاوید اور ان کا وہ ساتھی اپنی جان بچا سکیں ۔ دانش عالم کے اس فعل نے اس کی اپنی عارضی زندگی کا تو خاتمہ کر دیا مگراس کے ایثار اور قربانی نے ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم کر دیا ان کی لاش کو پانچ چھ دن بعد جھیل سے نکالا گیا- تین بہنوں کے اکلوتے بھائی کی موت پر ان کے والد کا یہ کہنا تھا کہ تو ان کا یہ کہنا تھا کہ دانش کے اس انداز سے مرنے پر ان کو دکھ نہیں ہوا اس کے بجائے اگر دانش کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت مرتا تو ان کا دکھ زیادہ ہوتا- کیوں کہ ان کو دانش کی فطرت کا اندازہ تھا وہ ہمیشہ دوسروں کے لیے جینے اور دوسروں کے لیے مرنے والا لڑکا تھا اور اس کی موت اس بات کا ثبوت ہے- |
Load/Hide Comments