ایک والدہ ایسی تھی، جس کے تینوں بچے شہید ہو گئے تھے ۔۔ میڈیا رپورٹر نے کس طرح اپنے جذبات پر قابو رکھا؟ دیکھیے
پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں بے انتہا شہری شہید ہو چکے ہیں، جبکہ کئی معزور بھی ہو چکے ہیں۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی خبر میں آپ کو سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق بتائیں گے۔ 144 طالب علم بشمول اساتذہ اور نان ٹیچنگ اسٹاف اس حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ یہ دن 16 دسمبر کا تھا، جس دن پاکستان کو پہلے ہی ایک زخم بنگلا دیش کی صورت میں مل چکا تھا۔
وہ دن کئی گھروں کو اجاڑ گیا تھا، اس دن داخلہ کے لیے خولہ بھی شہید ہو گئی اور اسکول پرنسپل طاہرہ کاظمی بھی بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہو گئی۔ اس دن شہید اور ظالم میں فرق واضح ہو گیا، کچھ نئے شہید اور ہیرو ہمارے سامنے نظر آئے۔
اگرچہ حملہ میں دہشت گرد مارے گئے مگر بچوں کی شہادت نے پاکستان کو بہت بڑا زخم دیا تھا۔ جیو نیوز کی رپورٹ کی ویڈیو اس وقت کافی وائرل ہوئی تھی جب وہ بچوں کی شہادت کا بتاتے ہوئے جذباتی ہوگئی تھیں۔
رپورٹر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی دل دہلا دینے والا تھا۔ جس دیکھنے والوں کو بھی رلا دیا تھا۔ رپورٹر بتاتی ہیں کہ رابعہ میں وہ بدقمست رپورٹر ہوں جس نے 106 جنازے دیکھے ہیں۔ پشاور کی ہر گلی میں جنازہ موجود ہے۔ رپورٹر کی آںکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور وہ یہی شکوہ کر رہی تھیں کہ میں خود ماں ہوں، میں انہیں سمجھ سکتی ہوں، ماں کس طرح تکلیف سے دوچار ہے۔
آج وہی وقت ہے اسکول جانے کا مگر آج کسی کو دیر نہیں ہو رہی ہے، بس اس بات کی دیر ہو رہی ہوگی کہ ان کی تدفین کر دی جائے۔
وہ بتاتی ہیں کہ صبح بچے تیار ہو کر اسکول وین میں گئے تھے، والدین نے انہیں الوداع کیا مگر وہ واپس ایمبولینس میں آئے۔
رپورٹر بتاتی ہیں کہ رابعہ میں ایک ایسی والدہ بھی دیکھیں جو دلاسہ دے رہی تھیں مگر ان کے خود کے تینوں بچے حملے میں شہید ہو گئے تھے۔
یہ واقعہ دنیا بھر کے میڈیا کی جانب سے کور کیا گیا، جبکہ بھارتی میڈیا بھی اس غم میں شامل تھا اور پاکستان کے دکھ کو بانٹ رہا تھا۔