باپ نشہ کرتا ہے اور بھائی گھر چھوڑ گئے، بڑے ہو کر اس بچے کا اپنی ماں کے لیے ایسا کام کرنے کا خواب جس نے سب کو جذباتی کردیا
اولاد کی خواہش ہر شادی شدہ جوڑے کے دل میں ہوتی ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن کی قسمت میں اللہ کی جانب سے یہ نعمت سے محرومی لکھی ہوتی ہے اور وہ ہزار منتوں اور مرادوں کے باوجود اولاد کے لیۓ ایک جھلک کے لیے تڑپتے ہوئے گزار دیتے ہیں-
کچھ ناقدرے جوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اس نعمت کو پا تو لیتے ہیں مگر اس کی قدر نہیں کر سکتے ہیں- ایسے بدنصیب ہوگ صرف اپنی اولاد کے ساتھ دنیا ہی میں زيادتی نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کو اس کا حساب آخرت میں بھی دینا پڑے گا-
ایسے ہی ایک بدنصیب عبدالرحمن نامی بچے کا باپ بھی ہے تیرہ سالہ عبدالرحمن جو کراچی کی سڑکوں پر گھوم پھر کر ملتانی کڑاہی والے سوٹ بیچتا نظر آتا ہے- اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ کام اس سے پہلے اس کی ماں کرتی تھی-
مگر اب اس کی ماں کی بیماری کی وجہ سے اس کے آرام کے خیال سے اس نے یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے لی ہے۔ اس کا مزيد یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے والد نشے کے عادی ہیں جب کہ بڑے بھائی ان حالات کے سبب ان کو چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بھائيوں کے رویے کے سبب وہ اب ان کے لیے مر چکے ہیں-
ایسے حالات میں جب کہ عبدالرحمن کے پڑھنے کے دن ہیں اس کے کاندھوں پر گھر کے اخراجات کی تمام تر ذمہ داری اس معصوم کے کاندھوں پر آپڑی ہے۔ اس سب کے باوجود عبدالرحمن کا یہ کہنا تھا کہ کاندھوں پر رکھ کر کپڑے بیچتے بیچتے اس کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ ایک دن کپڑوں کی ایک دکان کھولنے میں کامیاب ہو سکے تاکہ اپنی ماں کی اچھی طرح سے خدمت کر کے اسکو آرام پہنچا سکے –
ایک ننھے سے بچے کی اس عمر میں کھیلنے کی خواہش ہوتی ہے اسکول جانے کی خواہش ہوتی ہے مگر حالات کے سبب عبدالرحمن اپنا بچپن وقت سے پہلے ہی کہیں کھو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی بچپن کی خواہشات بھی کہیں دم توڑ چکی ہیں اور اس کے پیش نظر اب صرف یہی رہ گیا ہے کہ وہ کسی طرح سے اس قابل ہو سکے کہ اپنی ماں کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے –
عبدالرحمن جیسے بچے معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں ایسے بچے معاشرے کی ذمہ داری ہوتے ہیں اور معاشرے کی غفلت کے سبب اپنے بچپن کو کھو بیٹھتے ہیں-