بھائی نے اپنی سگی بہن کو تفریح کے بہانے سوات لے جا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔۔۔
قارئین آپ کو انتہائی افسوس ناک واقعہ سے آگاہ کریں جو سوات کے علاقہ میں پیش آیا۔ تفصیلات کے مطابق مالاکنڈ سے بھائی کے ساتھ سوات سیر کے لیے آنے والی بہن نے ہوٹل میں اپنے سگے بھائی پر زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اندراج مقدمہ کے دوران بتایا کے اس کا سگا بھائی جلال تفریح کے بہانے مدین لے گیا جہاں ہوٹل میں زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ملزم کو ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ملزم نے پولیس کو حیران کن بیان دیتے ہوئے کہا کہ والدہ اور ہمشیرہ اس کی شادی نہیں کرا رہے تھے اس لیے اس نے اپنی ہمشیرہ کو ہوس کا نشانہ بنایا۔ایس ایچ او مدین حلیم خان کے مطابق ملاکنڈ کے علاقے تھانہ کی رہائشی خاتون نے ایف آئی آر درج کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے کالام اور مدین گئی جہاں اس کے ساتھ ملزم نے تین بار زیادتی کی۔جب ملزم نے پہلی بار زیادتی کی تو منت سماجت کی ،
اگلی رات دوسرے ہوٹل میں لے گیا جہاں ایک بھر اسے زبردستی ہوس کا نشانہ بنایا۔خاتون کے مطابق ملزم اس کا اکلوتا بھائی ہے۔پولیس نے خاتون کا میڈیکل کروا لیا ہے۔مدین پولیس کے مطابق ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تاہم
عدالت نے اسے ایک روز ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ملزم کے مطابق والدہ اور ہمشیرہ میری شادی نہیں کروا رہی تھی اس لیے بہن کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا یا ۔ملزم کا پولیس کو بیان۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ خیال رہے کہ ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں سے زیادتی کے واقعات کے ساتھ ساتھ کم سن بچے اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں بھی ہوشربا اضافہ ہو اہے
جس نے والدین کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رواں برس بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل
کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ 12 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب بڑے صوبے پنجاب میں گذشتہ برس (سنہ 2020 میں) بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے تقریباً 1337 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ شدہ کیسز کے مطابق صوبے میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے تقریباً 900 مبینہ واقعات ہوئے اور 400 سے زائد بچیوں کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔