تعمیر کعبہ اور حجرا سود کی تنصیب کا فیصلہ
خانہ کعبہ کی عمارت نشیب مین واقع تھی اس لیے بارش کے پانی سے اسے نقصان پہنچتا رہتا تھا۔ 605 ء میں قریش نے یہ فیصلہ کیا کہ از سر نو مستحکم عمارت تعمیر کرنی چاہئے ۔ اتفاق سے انہی دِنوں جدہ کی بندر گاہ پر ایک تجارتی جہاز ٹوٹ گیا۔ قریش اس کے تختے خرید لائے اور کعبہ کی تعمیر نو شرو ع ہو گئی ۔ سارے قبائل اس کام میں شریک تھے جب حجرا سود نصب کرنے کا وقت آیا تو سخت جھگڑا پیدا ہو گیا۔ کینوکہ ہر شخص کو اس شرف کے حصول کی خواہش تھی۔ یہاں تک کہ تلواریں نکل آئیں۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص دوسرے دن صبح سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا اسے ثالث تسلیم کر لیا جائے گا۔ قدررت خداوندی سےدوسرے دن سب سے پہلے حضور کریم ﷺ کو خانہ کعبہ میں موجود پایا گیا۔
امین ﷺ کو دیکھتے ہی سب کو اطمینان ہوا اور آپ ﷺ کو ثالث مان لیا گیا۔
“محمدﷺ صادق اور امین ہیں اور ہم ان کے فیصلے کو تسلیم کریں گے”
آپﷺ نے اس شرف مین سب کی شمولیت کے لیے یہ ترکیب نکالی کہ تمام قبائل کا ایک ایک نمائندہ طلب کیا ۔ بعد ازاں ایک چادر بچھا کر اس میں حجرا سود رکھ دیا۔ اور قبائل سرداروں کو کہا کہ چادر کو اٹھا کر موقع پر لےآئیں۔ پھرآپ ﷺ نے حجرا سود کو دست مبارک سے نصب کر دیا۔ اس طرح ایک طرف ایک خطرناک فتنہ دب گیا اور دوسری طرف خانہ خدا جس کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ نے رکھی تھی اس کی تکمیل پیغمبر آخر الزمان کے ہاتھوں سر انجام ہو گئی۔