جب ایک باپ درنده بنا۔۔۔
ایک آسٹرین شہری جوزف فرٹزل نےسن 1984 میں اپنی 18 سالہ سگی بیٹی الیزبتھ کو پورے 24 سال تک اپنے گھر کے تہہ خانے میں بغیر کسی کھڑکی یا روشن دان کے قید کیے رکھا۔
جوزف نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ تہہ خانے کے اوپر والے گھر میں اپنی بیوی یعنی الیزبتھ کی ماں اور باقی بہن بھائیوں کو رکھا ہوا تھا اور انہیں سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ تہہ خانے
کی طرف کوئی بھول کر بھی نہ جائے۔ وه تہہ خانہ جہاں اس کی بیٹی نے اپنے ہی والد کے سات بچوں کو جنم دیا۔ وه 24 سال تک مسلسل اپنی بیٹی کے ساتھ بدکاری اور زیادتی کرتا رہا۔
الیزبتھ نے ان گنت بار فرار ہونے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ گھونسوں اور لاتوں سے اسے سزا دی جاتی۔ کبھی كبهار جوزف بجلی بند کر کے اسے کئی دنوں تک مکمل اندھیرے میں رکھتا تھا۔
پھر وہ حاملہ ہو گئی تو اس نے اپنے باپ سے التجا کی کہ وہ اسے بچہ پیدا کرنے کے لیے ہسپتال جانے دے لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ظالم جوزف نے پورے 24 سال دوہری زندگی گزاری۔ اس نے سب کو دھوکہ دیا۔ اس نے اپنی بیوی اور قانونی نظام کو بھی دھوکہ میں رکھا۔تہہ خانے میں پیدا ہونے والے سات میں سے تین
بچوں نے کبھی سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی۔جب کہ ایک بچہ پیدائش کے تین دن بعد ہی مر گیا اور جوزف نے اس بچے کی لاش کو تہھانے سے نکال کر جلا دیا۔ 24 سال بعد رہائی سے الیزبتھ نفسیاتی طور پر انتہائی پریشان تھیں۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد نے 11 سال کی عمر سے اس کے ساتھ جنسی زیادتی شروع
کر دی تھی۔جوزف جو کہ ایک الیکٹریکل انجینئرنگ تھا ، وه ایک چھوٹے سے خفیہ دروازے کے ذریعے تہہ خانے کی جیل میں داخل ہوتا تھا ، وه دروازه ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔الیزبتھ کے ساتھ کیا ہوا اس سے اس کی سگی ماں روزمیری بھی بے خبر تھی۔ جوزف نے اسے یہ کہانی سنائی کہ اس کی بیٹی رضاکارانہ
طور پر غائب ہو گئی ہے جب اس کے والدین کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ انہیں اس کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔یہ ظلم و جبر کا کھیل اس وقت اپنے احتتام کو پہنچا جب جوزف کو الیزبتھ کی 19 سالہ بیٹی کرسٹن ، جو تہھانے میں رہتی تھی ، کو ایک جان لیوا بیماری کے وجہ سے مجبورن ہسپتال میں داخل
کرانا پڑ گیا۔لڑکی کی حالت دیکھہ کر سپتال انتظامیہ نے فوری اسکی ماں ایلیسبتھ کی تلاش شروع کر دی کیونکہ کرسٹن کی حالت بہت نازک تھی۔ماں اور بچوں کی حالت دنیا پر
اس وقت کھلی جب الیزبتھ اور اس کے والد ہسپتال میں اکٹھے نظر آئے۔شک کی بناء پر انہیں قریبی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ جہاں الیزبتھ نے روتے ہوئے پولیس کو اپنی درد ناک کہانی
سنائی۔درنده صفت جوزف کو اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے اور قید میں رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔الیزبتھ پولیس سے بات کرنے کے لیے صرف اس شرط پر راضی ہوئی
کہ اب وه اور اس کے بچے دوبارہ کبھی اپنے والد جوزف کا چہرہ نہیں دیکھیں گے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جب جوزف نے 1984 میں اپنی بیٹی کو قید کیا ، اس نے یہ تاثر دیا کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ گئی ہے۔ وہ انٹرپول کے لاپتہ افراد کی فہرست میں بھی شامل رہی۔جوزف جیسے مکار انسان نے 1993 اور 2002 کے
درمیان مختلف مواقع پر دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی نے تین بچوں کو اس تحریری نوٹ کے ساتھ ان کی دہلیز پر چھوڑا ہے کہ وه ان کی دیکھ بھال کریں۔حکام نے جوڑے کو رضاعی والدین بننے کی اجازت دی جو ان کے پوتے پوتے سمجھے جاتے تھے۔ماں آخر ماں ہی ہوتی ہے۔الیزبتھ نے تہ خانے کے اندر ہی اپنے تمام بچوں کو بولنا
سکھایا۔ جوزف کھانا اور کپڑے مہیا کر دیتا تھا۔ایک پڑوسی نے بتایا کہ جوزف غیر واضح انسان تھا اور ہمیشہ دوستانہ انداز میں ہمارا استقبال کرتا تھا۔ایک اور نے بتایا کہ انہیں حقیقت کا بلكل بھی علم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔رہائی کے بعد بچوں کے ہسپتال میں ٹیسٹ کرواے گئے۔ خاص طور پر ان کی آنکھوں اور جلد
کی تکلیف کی وجہ سے دن کی روشنی میں انہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ معاشرتی طور پر وه بچے کسی قسم کی کمیونٹی کا احساس پیدا نہیں کر سکتے تھے۔کیوں کے وه کبھی سکول گئے ہی نہیں تھے۔اپنی بیٹی کو اغواء ، تشدد اور جنسی زیادتی کے جرم میں جوزف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔