جو ہماری لڑکیاں جینز کے طور پر پہن کر گھروں سے باہر آجاتی ہیں وہ کپڑے نہیں ، لاہور کی خاتون آفیسر نے قوم کو آئینہ دیکھا دیا

نامور کالم نگار محمد عامر خاکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔ہم نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا ڈرامہ نہیں دیکھا

جس میں سالی یعنی چھوٹی بہن اپنے بہنوئی پر فدا ہوجائے اور اعلانیہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن 22 کروڑ کی آبادی والے اسلامی ملک پاکستان میں یہ ممکن ہے۔

اگر ایسا کبھی کہیں ہوتا بھی تھا، لیکن کسی نے کبھی اس طرح اس کو اجاگر کرنے کی جرات نہیں کی۔ یہ سب اب ہو رہا ہے۔

اسی طرح کس نے سوچا ہوگا کہ ایک فیشن شو ایک فیملی چینل پر نشر کیا جائے گا جہاں معروف اداکارہ غلط کپڑے پہنے نظر آئیں گی۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ہے۔


تعلیمی اداروں کی حالت ایسی ہے کہ فیشن بدصورت اور ہولناک شکل میں منظر عام پر آیا ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے ہماری خواتین طالب علموں کی ایک بڑی تعداد غیر ضروری ، غیر مہذب لباس پہن کر یونیورسٹیوں میں جاتی ہے جو کہ وہ گھر میں یا خاندان میں نہیں پہن سکتی۔ نجی یونیورسٹیوں میں یہ رجحان بہت زیادہ ہے ، لیکن سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی حالات کچھ کم نہیں ہیں۔

 پنجاب یونیورسٹی میں تو ایک طلبہ تنظیم کی مورل پولیسنگ کی وجہ سے معاملات زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتے، اگرچہ ڈریس کوڈ پر وہ بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انہیں کہنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ تو والدین کے روکنے ٹوکنے کا کام ہے۔ جو شائد اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کے لئے بھیجتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا پھر ان کے ذہن سے اچھے ، برے، شرعی، غیر شرعی کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل خاتون نے ان باکس میسج میں حیرت ظاہر کی کہ آخر کوئی بچی ٹائٹس (ٹانگوںسے پیوست شدہ پاجامہ)اور چھوٹی ٹی شرٹ پہن کریونیورسٹی کیسے جا سکتی ہے ؟ وہ خاتون ایک بڑے بینک میں ملازمت کرتی ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ کیا مائوں کو نہیں پتا کہ ٹائٹس تو نیچے پہننے والا کپٹرا (انڈرگارمنٹ) ہے،

اسے پینٹ کی جگہ پہننے کا مطلب ہے کہ آپ اپنا جسم پوری طرح عیاں کر دیں اور مختصر ٹی شرٹ کے ہوتے ہوئے ڈھانپنے کا معمولی سا چانس بھی ختم ہوگیا۔ انہوں نے بڑی دل گرفتگی سے لکھا ،’’ ملازمت کے سلسلے میںروزانہ شوکت خانم چوک سے گزرنا پڑتا ہے، قریب ہی تعلیمی ادارے ہیں، شدید افسو س ہوتا ہے کہ بچیاں رکشوں، ویگن اور کبھی تو چنگ چی رکشے سے اترتی ہیں،مگر لباس نہایت قابل اعتراض،جسم سے چپکی ٹائٹ جینز یا ٹائٹس یا پھر ٹخنوں سے اونچی شلوار جس میں پنڈلیاں عیاں ہوں، بال کھلے ہوئے، دوپٹہ نام کو نہیں۔
یہ کیسا پڑھنے والا لباس ہے؟‘‘ انہوں نے دردمندی سے لکھا کہ قریب ہی سگریٹ پان کی دکانیں ہیں جہاں لفنگے کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے میسجز بہت سی خواتین نے کئے کہ بچیوں کے لباس پر والدین کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ کوئی ماں جس کی اپنی بیٹی کے ہر معاملے پر گہری نظر ہوتی ہے، وہ ایسے لباس کو کیسے نظراندازکرسکتی ہے؟کیا والدہ کو نہیں معلوم کہ دوپٹے کے بغیر باہر نکلنا مناسب نہیں اورایک عورت کے لئے اسلام نے کیا شرعی ستر رکھا ہے؟ایک صاحب نے ای میل میں بتایا کہ وہ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، انہیں جو کچھ دیکھنا اور سہنا پڑتا ہے اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے لکھا کہ ایک بار پیپرز ہورہے تھے، وہ نگرانی کر رہے تھے، ایک بچی نے بہت کھلے گریباں کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔

آگے جھک کر لکھتے ہوئے ایسا نامناسب منظر بنا کہ انہیں سختی سے ٹوکنا پڑا کہ شرٹ درست کر کے سیدھی ہو کر بیٹھے۔ ان کا بھی سوال یہی تھا کہ جب یہ بچی یہ شرٹ پہن کر گھر سے نکلی تو والدین نے کیوں نہ روکا؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ناخوشگوار واقعہ جب ہو تو عوام خاص کر والدین لرز جاتے ہیں۔پریشانی فطری امر ہے، مگر یہ بھی سوچیں کہ ایسے واقعہ بہت سی دیگر غلط باتوں سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک پورا چین ری ایکشن (Chain Reaction)ہو تب ایسے سانحات ہوتے ہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر معاملے میں قصور لڑکی کانہیں ۔ لڑکے بھی معصوم یا دھلے دھلائے نہیں۔ ان میں سے بہت سوں کی تربیت میں نقائص ہیں۔ والدین ان کی بہت سی غلطیوں، بدتمیزیوں، فضول حرکتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان پر نظر نہیں رکھتے،

تربیت نہیں کرتے، شرعی غیر شرعی کا فرق نہیں سمجھاتے۔ نظر کی حفاظت کرنا، غض بصر کے قرآنی حکم کا نہیں بتاتے۔ بری صحبت کو مانیٹرنہیں کیا جاتا۔ وہ جہاں آئیں، جائیں، فون پر جس سے رابطہ رکھیں، جو مرضی کریںان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ نتیجے میں لڑکے بھی ایسے بلنڈرز کرتے ہیں کہ پھر والدین کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ اہم نکتہ یہی ہے کہ اساتذہ، تعلیمی اداروں، سماج اور میڈیا سے تربیت کی امید نہ رکھیں۔ وہ اس بوجھ اورذمہ داری سے آزاد ہوچکے۔ اپنے بچوں کو بچانا ہے تو ان کی تربیت خود کرنا پڑے گی۔ ہمیں برائی،فحاشی اور شر کی اس یلغار کے مقابلے کے لئے بند خود باندھنے ہوں گے۔ دوسروںسے امید چھوڑیں اور سوچیں کہ کیا کر سکتے ہیں؟اس پر جو چند نکات سمجھ میں آئے ، انہیں اگلی نشست میں ان شااللہ بیان کروں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں