حجاج بن یوسف ،حسینہ کا انتقام


خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی نامی ایک شخص عراق کو گورنر تھا آپ اسے محمد بن قاسم کے چچا یا سسر کی نسبت سے بھی جانتے ہیں ۔ اور ایک ظالم و جابر حکمران کے حوالے سے بھی جانتے ہیں۔ یہی وہ شخص تھا جس نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے ق ت ل کرنے کے بعد ان کی ل اش کوتین دن تک س ولی پر لٹکانے رکھا جب کہ اسی جن گ میں حجاج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی اور عمارت کو نقصان پہنچایا اس کےعلاوہ ہزاروں معصوم لوگوں کو سخت ایذائیں دینا اورصحابہ کرام کی بھی بے حرمتی کرنا اس کے سنگین جرائم میں شامل ہے ۔

حجاج کی موت کے بعد جب قیدیوں میں شمار کیا گیا تو اس میں ایک لاکھ بیس ہزار مرد اور بیس ہزار عورتیں تھیں اور ان میں چار ہزار ایسی عورتیں تھیں جن کے جسم پر لباس نہیں تھا اور یہ قیدی ایک ہی چہار دیواری میں قید تھے قید خانہ کی چھت نہیں تھی۔ جب کوئی قید گرمی سے بچنے کےلے اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کا سایہ بناتا تو زندان کے سپاہی اس کو پتھر ما رتے تھے۔

انہیں جو کی روٹی میں ریت ملا کر کھانا دیاجاتا اور پینے کے لیے کڑوا پانی دیاجاتا۔ حجاج لعین بےگناہ افراداور بالخصوص سادات کا خ ون بہانے کو اعزاز سمجھتا تھا ایک مرتبہ اس ملعون نے روزہ رکھنا چاہا تو نوکروں کوحکم دیا کہ اس کے لیے من پسند سحری اور افطاری کا انتظام کیاجائے چنانچہ اشارہ فہم نوکروں نے اس کے لیے ایسی روٹیاں تیا رکیں جنہیں سادات کےخ ون سے گوندھا گیا تھا

اس لعین نے اسی روٹی سے سحری و افطاری کی ملعون کو ہمیشہ اس بات کا دکھ رہتا تھا کہ وہ کربلا میں موجود نہ تھا۔ ورنہ وہ شمر سے بھی بڑھ کر ظلم کرتا حجاج نے کوفہ و بصری کے درمیان شہر و صد کی بنیاد رکھی۔جہاں وہ نوماہ سے زیادہ قیام نہ کرسکا۔ اور تریپن سال کی عمر میں مرگیا ابن خلقان کہتے ہیں۔ کہ حجاج کو عارضہ عاقلہ لاحق ہوگیا تھا۔

اس کے جسم کےاندر بچھو نما کیڑے پیدا ہوگئے۔ ایک طبیب کو بلایا گیا تو اس نے گو شت کا ایک ٹکڑا ریشم کی رسی کے ساتھ باندھا اورحجاج کو کہا وہ اس گوشت کے ٹکڑے کو نگل لے حجاج نے گوشت کا ٹکڑا نگلا اور کچھ دیر بعد ریشم کی ڈور سے اس ٹکڑے کو کھینچا تو اس ٹکڑے پر بہت سارے کیڑے چمٹے ہوئےتھے۔ اللہ نے حجاج کے جسم پر سردی کو مسلط کردیا۔ اس کے اطراف میں دن رات کوئلوں کی انگیٹھیاں جلائی جاتی تھیں۔لیکن وہ پھر بھی سردی سے چلاتا رہتا تھا۔

اس نے حسن بصری سے اپنے درود علم کی شکایت کی تو انہوں نے کہا میں نے تجھے بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کے ق ت ل بارہا منع کیا تھا لیکن تو باز نہ آیا آج تو اسی کا خمیازہ بگھت رہا ہے ۔ حجاج نے کہا کہ میں خدا سے یہ دعائیں کرتا کہ وہ مجھے دوزخ سے آزاد فرمائے بس میری اتنی سی دعا ہے کہ جلدی سے میری روح قبض کرلے تاکہ میں دنیا کے درود الم سے چھٹکارا ہو۔ لیکن سردی ختم نہ ہوتی یہ تو تھی موت کی سختیاں لیکن حجاج کی زندگی میں ایک واقعہ ایسا بھی ہوا۔

جس نے اس غرور تکبر کے پتلے کو زمین پر دے م ارا اس زمانے میں نعمان نامی ایک شخص کا انتہائی حسین وجمیل بیٹی تھی ۔ اس لڑکی کا نام ہندہ تھا وہ ہندہ نہیں جو سید الشہدا ء حضرت حمزہ کی شہادت اور پھر آپ کے جسم مبارک کی بے حرمتی میں ملوث رہی تھی یہاں جس ہندہ کیا بات ہورہی ہے وہ ایک غریب لڑکی لیکن اپنے حسن وجمال میں بے مثال تھی کہا جاتا تھا کہ پورے عرب میں اس جیسی خوبصورت عورت نہ تھی۔ حجاج نے جب اس لڑکی کی شہرت سنی تو اس کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا سو اس نے اپنے کارندوں کی مدد سے ہندہ سے ملاقات کی صورت پیدا کرلی ۔

جب حجاج کی نظر ہندہ کے چہرے پرپڑی تو وہ اس کا عاشق ہوگیا جہاں دیکھتا اسے اپنی محبوبہ ہندہ کا چہرہ نظرآتا چنانچہ حجاج نے ہندہ کو حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ دو لاکھ درہم کے عوض اس کا نکاح ہوگیا اور ہندہ حجاج کے محل میں آگئی ۔ شروعات میں حجاج ہندہ پر جان نچھاور کرتا ور ہرطرح سے اس کی آسائش کا خیال رکھتا۔ ہندہ کسی دولت مند گھرانے سے نہ تھی ۔

حجاج سے نکاح کرنے کے بعد وہ دولت میں کھیلنے لگی اور اسے ہرطرح کا سکون میسر آگیا دن گزرتے رہے رفتہ رفتہ حجاج اس کی محبت پر غالب آگئی اب وہ ہندہ سے بھی اس طرح پیش آنے لگا جیسے دوسرے لوگوں سے سلوک روا رکھتا۔ اس نے انتہائی ذلت کے ساتھ عبداللہ بن طاہر کے ذریعے دو لاکھ درہم ہندہ کے پاس بھیجے اور کہلا بھیجا کہ میں نے تجھے طلاق دی تیرے مہر کے دولاکھ درہم تھے بھجوارہاہوں اب جہاں تیرا جی چاہے چلی جا۔

ہندہ نامی یہ عورت صرف اپنے حسن وجمال میں ہی لاثانی نہ تھی ۔ بلکہ اپنی سیر ت فصاحت و بلاغت اور غیرت و حمیت کے لحاظ سے بھی بہت اونچی تھی۔ جب اس نے عبداللہ بن طاہر کی زبانی یہ پیغام سنا تو فوراً بول اٹھی اے قاصد تیر ی زبان مبارک ہوتو نے مجھے بڑی جان فزا خوشخبری سنائی میری خوش قسمتی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے۔کہ میں نے ایک بد مزاج اور خ ون خوار انسان کی قید سے رہائی پائی یہ دو لاکھ درہم جو اس نے میرے لیے بھیجے ہیں۔

اس خوشخبری سنانے کے عوض میں تجھے بخشتی ہوں یہ میری طرف سے تیرا انعام ہے ۔ طلاق کے بعد ہندہ اس محل کو چھوڑ کر اپنے عام سے گھر چلی گئی ۔ قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دن بعد خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا جس پر ہندہ نے انکا ر کر دیا۔ جب خلیفہ نے اصرار کیا تو بالآخر وہ رضامند تو ہوگئی ۔

لیکن ساتھ میں ایک شرط بھی پیش کی ہمار ا نکاح اس صورت میں ہوسکتا ہے۔ کہ میں اپنے مکان سے جس مہمل میں سوار ہو کر آپ کے محل تک آؤں اس کا ساربان حجاج بن یوسف ہوجوشخص اونٹ کی رسی پکڑ کر چلتا ہے اسے ساربان کہاجاتا ہے خلیفہ نےیہ شرط قبول کردی۔ اور اسی خط کے پچھلی جانب لکھ بھیجا کہ حجاج حاکم کوفہ اس حکم کی تعمیل کرے حجاج نے جب یہ رقعہ پڑھا تو وہ دم بخود رہ گیا مگر اس کی کیا مجال تھی ۔

جوخلیفہ کے حکم کی سرتابی کرتا ناچار وہاں سے روانہ ہوکر ہندہ کے مکان پر آیا ہندہ اور اس کی سہیلیاں جب اپنے اپنے مہمل میں تھی تو حجاج اپنی پوری پوشاک کے ساتھ ہندہ کے مہمل کے قریب آیا اور سابانوں کی طرح اونٹ کی مہار پکڑ کر پیدل چلنے لگا ہندہ کے ملازم اور اس کی سہیلیاں تمام راستہ اسے چھیڑتے رہے مگر وہ خاموش چلا جارہاتھا۔

جب شاہی محل قریب آیا تو ہندہ نے اپنی سوار پر سے ایک سونے کا سکہ قصدا پھینک دیا ساتھ ہی حجاج کو آواز دی اے ساربان ہمارا ایک چاندی کا سکہ زمین پر گرگیا ہے اسے اٹھا دو حجاج نے مہار رو ک لی وار سکہ اٹھایا تو وہ چاندی کا نہیں بلکہ سونے کا تھا بولا حضور یہاں چاندی نہیں بلکہ سونے کا سکہ ہے ہندہ نے اس کے ہاتھ وہ سکہ لیا اور اپنی سہیلی سے کہنےلگی یہ میری قسمت ہے کہ میری ہاتھ سے چاندی کا سکہ گرا لیکن بعد میں وہی سکہ سونے کا بن گیا

حجاج یہ بات سن کر بہت خفیف ہوا مگر خلیفہ کی بیوی کے سامنے دم م ارنے کی جرات نہ کرسکا کہتے ہیں ایک عورت نےذلیل ہونے کا دکھ حجاج بن یوسف کو اس کی ساری زندگی ستاتا رہا ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ظلم سے بچائے اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطافرمائے

اپنا تبصرہ بھیجیں