حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: م و ت کے لیے ہروقت تیاررہو یہ تمہارے سر پر کھڑی ہے۔ م و ت کے حاضر ہونے کے وقت امیدوں میں ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔ مصیبت پہلے ایک ہوتی ہے۔ مگر گھبرانے سے دو گنا ہوجاتی ہے۔ جو خوف زیادہ کرتا ہے۔ وہ آفات میں کم مبتلا ہوتا ہے۔ لمبی دوستی کےلیے دوچیزوں پر عمل کرو ایک اپنے دوست سے غصے میں بات مت کرو اور دوسرا اپنے دوست کی غصے میں کہی ہوئی بات دل پر مت لو۔
اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا دلو ں کی روشن کرتا ہے۔ دوست کی نعمت پر حسد کرنا کم ہمتی اور ذلالت کی دلیل ہے۔ بلا شبہ حلال مال کمانا اللہ تعالیٰ کی تو فیق کی نشانی ہے۔ حسد لاعلاج بیماری ہے۔ جو ہ لاک کیے بغیر نہین چھوڑتی۔ ہلاکت کی چیزوں کے پیچھے پڑنا حماقت کا نشا ن ہے۔
حق پر قائم رہنےسے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ دنیا والوں پر اپنا دکھ ظاہر مت کرو، کیونکہ وہ وہاں چوٹ ضرور مارتے ہیں جہاں سے پہلے زخم ہو۔ لو گ ہمارے اندر ہمارا دکھ تلاش نہیں کرتے ، ان کو اس تماشے کی کھوج ہوتی ہے۔ جو ہمارے ساتھ ہوا۔ دکھ کی سختیاں چہرے سے تو رخصت ہوجاتی ہیں۔
لیکن انسان کے اندر داخل ہو کر اس کے گوشے گوشے کو ویران کردیتی ہیں۔ ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا اور کہنے لگا؟ یاعلی ! آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ہزاروں نعمتیں انسانوں کے لیے پید ا کیں تو یہ دکھ ، تکلیف اللہ تعالیٰ نے کیوں پیدا کی ؟تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے بندے ! شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے دکھ کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت دکھ ہے۔
تو وہ شخص کہنے لگا ؟ یا علی دکھ بھی نعمت ہے؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے شخص! دکھ انسان کومضبوط بناتا ہے۔ اور خوشیاں انسان کو کمزور کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس انسان کو نوازنا چاہتا ہے عظیم مقام دینا چاہتا ہے تو اسے تکلیف ، دکھ اور درد کی راہ بخشتا ہے۔ تاکہ وہ مضبوط بن بن کر اتنا سیکھ لے کہ اپنی منزل تک جا پہنچے۔ یا درکھنا انسان کا دکھ انسان کو سیکھانے کےلیے ملتا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ انسان اس دکھ کی وجہ سے روتا رہتا ہے انسان دکھ اور درد کی وجہ سے کتنا بھی روتار ہے لیکن ختم نہیں ہوگا۔
کیونکہ دکھ انسان کو رلانے کے لیے نہیں بلکہ انسان کو سیکھانے کےلیے آیا جب تم اس دکھ سے سیکھ لو گے جو وہ تمہیں سیکھانا چاہتا ہے تو تمہارا دکھ خود بخود ختم ہوجائےگا۔ زندگی اتنی دکھی نہیں مرنے کو جی چاہے۔ بس لو گ اتنے دکھ دیتے ہیں کہ جینے کو دل نہیں کرتا۔ دکھ انسان کو یاریت کی دیوار کی طرح ڈھانپ دیتا ہے یا چٹان کی طرح کھردار اور سخت بنا دیتاہے۔