”خبردار ۔۔! اپنے گھر میں یہ کام ہرگز مت کرنا ورنہ تم پر رزق کے دروازے بند کر دیے جائیں گے ، حضرت علیؓ نے فرمایا :“
امام علی ؑ کی خدمت میں ایک شخص آکے عرض کرنے لگا یا علی وہ سب سے بڑی غلطی کونسی ہے جو انسان کے گھر پر مصیبت لاتی ہے بس جیسے ہی یہ پوچھا گیا تو امام علی ؑ نے فرمایا اے شخص میں نے اللہ کے رسول سے سنا کہ انسان کی وہ غلطی جو گھر پر مصیبت لاتی ہے وہ اللہ کے دیئے گئے رزق کا احترام نہ کرنا ہے یاد رکھنا جس گھر میں رزق کا احترام نہیں کیاجاتا بچی ہوئی روٹی وک زمین پر پھینکا جاتا ہے تو وہ پاؤں میں کچلی ہوئی روٹی اللہ کے دربار میں فریاد بلند کرتی ہے کہ اے اللہ اس تیرے بندے کے پاس تیرے دیئے گئے رزق کا احترام نہیں تو اسی وجہ سے رزق دن بدن کم ہوتا جاتا ہے مصیبتیں پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں اور یوں وہ انسان تنگ دستی میں گرفتارہونے لگتا ہے ۔ کھانے پینے کی اشیاء کے تعلق سے اس فراوانی اور بہتا ت کے دور میں اس کی ناقدری اور بے حرمتی ایک عام سی بات ہوگئی، بچے ہوئی کھانے کو محفوظ رکھ کر اس کے استعمال کو معیوب گردانا جاتا ہے؛ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ مغرب کی اندھی تقلید نے جہاں اقدار کے بہت سارے پیمانے بدل دیے ہیں ، اسی طرح کھانے کے بچانے اور اس کے پلیٹ میں رکھ چھوڑنے کو ایک مہذب عمل سمجھاجاتا ہے
اور پلیٹ کی مکمل صفائی اور پلیٹ کے بقیہ ریزوں کے استعمال اور اس کے کھالینے کو حقیر تر باور کیا جاتا ہے اور خصوصاً شادی بیاہ کے موقع سے اسراف وفضول خرچی کے وہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں اور رزق کی بے حرمتی کے وہ مناظر نگاہوں سے گذرتے ہیں کہ الامان والحفیظ، اسراف وفضول خرچی کا ایک طومار ہوتا ہے ، مختلف کھانوں کی ڈشش نے تقاریب کے موقع سے رزق کی ناقدری کو بڑھاوا دیا ہے ، مختلف نوع کے کھانے اور ہر ایک سے کچھ چکھ لینے کی نیت نہ جانے کس قدر رزق کی بے حرمتی اور اس کی ناقدری کی وجہ بنتی ہے ، اگر ہم یہ اراد کرلیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے تو کتنے غریبوں کی بھوک علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہوسکتا ہے۔ اور کتنے نانِ شبینہ کے محتاج اور سسکتے بلکتے اور فاقہ زدہ گھرانوں کی خوشیاں عود کر آسکتی ہے ، انانیت اور شہرت اور جاہ کی طلب نے بالکل اندھا کردیا ہے ، سوائے اپنے انا کی تسکین کے ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، لوگوں میں اپنی شان جتانے اور صرف ناک اونچی کرنے کی خاطر ہمیں زرق کی ناقدر ی اور بے حرمتی منظور ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینا منظور ہے؛ لیکن اپنی شان نہ جائے ، شخصیت پر آنچ نہ آئے۔میری نگاہوں سے رزق کی قدر دانی کے تعلق سے دو واقعات گذرے انھیں کی روشنی میں اس گناہِ عظیم اور ہمارے معاشرے کے اس عظیم روگ کے تعلق سے نشاندہی کرنا چاہتاہوں ، خدا را ان واقعات کو عبرت کی نگاہ سے پڑھیے ۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ذکر وفکر میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد ماجد حضرت مولانا سید اصغر حسین (جو میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے)کے گھر ملاقات کے لیے گئے ، کھانے کا وقت آگیا تو بیٹھک میں دسترخوان بچھا کر کھانا کھایا گیا، کھانے سے فارغ ہونے پر والد صاحب دسترخوان سمیٹنے لگے ؛ تاکہ اسے کہیں جھٹک آئیں، حضرت میاں صاحب نے پوچھا: یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ والد صاحب نے عرض کیا: حضرت دسترخون سمیٹ رہا ہوں؛ تاکہ اسے کسی مناسب جگہ پر جھٹک دوں ، میاں صاحب بولے ، کیا آپ کو دسترخوان سمیٹنا آتا ہے ، ؟ والد صاحب نے عرض کیا: کیا یہ بھی کوئی فن ہے؟ میاں صاحب نے جواب دیا : جی ہاں ، یہ بھی ایک فن ہے اور اسی لیے میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ کام آتا ہے یا نہیں ، والد صاحب نے درخواست کہ حضرت ! پھر تو یہ فن ہمیں بھی سکھا دیجیے، میاں صاحب نے فرمایاکہ آیئے ! میں آپ کو یہ فن سکھاوٴں ۔یہ کہہ کر انہوں نے دسترخوان پر بچی ہوئی بوٹیاں الگ کیں ، ہڈیوں کو الگ جمع کیا، روٹی کے جو بڑے ٹکڑے بچ گئے تھے ۔ انھیں چن چن کر الگ اکٹھا کر لیا، پھر فرمایاکہ میں نے ان میں سے ہر چیز کو الگ جگہ مقرر کی ہوئی ہے ، یہ بوٹیاں میں فلاں جگہ اٹھا کر رکھتا ہوں ، وہاں روزانہ بلی آتی ہے اور یہ بوٹیاں کھالیتی ہے ،
ان ہڈیوں کی الگ جگہ مقر ر ہے ، کتے کو وہ جگہ معلوم ہے اور وہ وہاں آکر یہ ہڈیاں اٹھا لیتا ہے ،اور روٹی کے یہ ٹکڑے میں فلاں جگہ رکھتا ہوں ، وہاں پرندے آتے ہیں اور یہ ٹکڑے ان کے کام آتے ہیں اور یہ جو روٹی کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں یہ میں چیونٹیوں کے کسی بل کے پاس رکھ دیتا ہوں اور یہ ان کی غذا بن جاتی ہے ۔اور پھرفرمایا : یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کا رزق ہیں ، ان کا کوئی حصہ اپنے امکان کی حد تک ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت پیسوں اور مال ودولت کی فراوانی میں جو ہم رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش کر رہے ہیں ، کبھی خدانخواستہ احوال زمانہ ہمیں کنگال اور بالکل غریب اور نہتا اور مفلس نہ کردیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین