ماں باپ کے لیے گھر میں جگہ نہیں، بوڑھے والدین 5 بیٹوں خلاف درخواست لے کر عدالت پہنچ گئے
’ہم تو ان سے کچھ نہیں مانگتے، یہ اپنی بیویوں کو خوش رکھیں لیکن بوڑھے ماں باپ کو بھی بے آسرا نہ چھوڑیں۔‘
یہ الفاظ تھے پشاور ہائی کورٹ میں اپنی اور اپنے شوہر کی کفالت کے لیے درخواست دینے والی بوڑھی ماں کے، جو چھ بیٹے ہونے کے باوجود بڑھاپے میں بے آسرا ہیں اور ان کے بیٹے ماں باپ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے رضامند نہیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں ایک ایسی دراخوست پر آج سماعت ہوئی جو بوڑھے والدین کی جانب سے عدالت میں دی گئی ہے۔ اس درخواست میں بوڑھے والدین نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے چھ بیٹے ہیں، جن میں سے پانچ بر سرِ روزگار ہیں اور ایک معذور۔ پانچ بیٹے اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں معذور بیٹا والدین کے ساتھ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کی تربیت، تعلیم اور شادی بیاہ کے لیے اپنا سب کچھ بیچ دیا تھا اور اب وہ خود کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا کرایہ بھی وہ نہیں دے پا رہے۔
یہ مختصر سی روداد آج عدالت میں پیش کی گئی، جس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ اگر بچے اپنے والدین کو اپنے پاس نہیں رکھتے تو ہم انھیں اپنے پاس رکھ لیں گے۔
ان بزرگ والدین کی جانب سے افشاں بشیر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آج عدالت میں جب سماعت شروع ہوئی تو ان والدین کا صرف ایک بیٹا عدالت میں پیش ہوا جبکہ باقی چار عدالت میں نہیں تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ سماعت کے دوران بیٹے نے کہا کہ وہ والدین کو ماہانہ کچھ روپے دیں گے، جس پر عدالت نے کہا کہ انھیں پیسوں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔
افشاں بشیر ایڈووکیٹ کے مطابق بوڑھے والدین اس وقت کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا کرایہ کوئی 4000 روپے ہے اور وہ یہ کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مقامی صحافی عدالت میں موجود تھے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت نے بیٹے سے پوچھا کہ بوڑھے والدین کو بے سہارا کیوں چھوڑا ہے۔ عدالت نے بزرگ خاتون نثار بی بی سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے بچوں سے خوش ہیں، جس پر بیٹوں کی ماں نے کہا ماں کو تو بچے ماریں بھی تو ماں خفا نہیں ہوتی، اور یہ باتیں کرتے ہوئی نثار بی بی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
نثار بی بی نے عدالت میں کہا کہ ’ان کے بیٹے اپنی اپنی بیویوں کو خوش رکھیں مگر والدین کو بے آسرا نہ چھوڑیں۔ ہم نے اپنے بچوں کی بہت محنت اور محبت سے پرورش کی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کی شادیوں کے لیے اپنا ذاتی مکان بیچا اور باقی جو جمع پونجی تھی سب خرچ کر دی اور ’اب ہم دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں‘۔
اس موقع پر عدالت نے بیٹے سے کہا کہ والدین نے بچوں کے لیے اپنا مکان فروخت کر دیا اور بیٹوں نے والدین کے ساتھ کیا سلوک کیا، صرف ہزار ہزار روپے دینے سے والدین کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کی جانب سے والدین کی فلاح کے لیے جاری آرڈینینس بھی قانون کی شکل اختیار نہ کر سکا، ’کیا یہ آرڈینینس صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے تھا‘۔
گزشتہ سال ستمبر میں صدر پاکستان نے تحفظ والدین آرڈینینس 2021 جاری کیا تھا جس کے تحت بچے والدین کو اپنے گھروں سے زبردستی نہیں نکال سکتے چاہے وہ اپنے گھر میں رہ رہے ہوں یا کرائے کے مکان میں۔ اس آرڈیننس کے تحت والدین کو گھروں سے بے دخل کرنے والے بچوں کو ایک سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
عدالت نے متعلقہ پولیس تھانے کے ایس ایچ او سے کہا کہ آئندہ سماعت پر تمام بیٹوں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
افشاں بشیر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بزرگ والدین کا ایک بیٹا باہر ملک میں ہوتا ہے جبکہ دو یہاں ملازمت کرتے ہیں، ایک سیکیورٹی میں ہے اور دوسرا منشی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ خاتون ایک دو مرتبہ ان کے پاس آئی تھی اور اپنی مشکلات بیان کی تھیں جس پر انھوں نے انسانی ہمدردی کے تحت عدالت میں یہ درخواست دی ہے۔ اس درخواست میں انھوں نے متعلقہ سرکاری اداروں اور بزرگ والدین کے بیٹوں کو فریق بنایا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ بزرگ والدین کو احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر اس طرح کے پروگرام سے بھی کوئی معاونت نہیں دی جا رہی۔
کمرہ عدالت میں موجود سینیئر صحافی عامر جمیل نے بتایا کہ اس درخواست کی سماعت کے دوران بھی ماں اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی کہ تم پریشان نہ ہونا ہم مجبور ہیں۔ ان بچوں کے والد گوہر علی عمر رسیدہ شخص ہیں اور جب ان سے بات کرنا چاہی تو انھوں کہا کہ وہ بات نہیں کر سکتے۔
خاتون نثار بی بی نے کہا کہ ’انھیں اب بچوں کے پاس واپس نہ بھیجا جائے، بلکہ ان کے لیے علیحدہ کوئی انتظام اگر ہو سکتا ہے تو وہ کیا جائے کیونکہ ماضی میں بھی ایسے ہی جرگے ہوئے اور رضا مندی سے ہمیں بیٹوں کے حوالے کیا گیا اور بعد میں تمام بیٹے ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے لگے کے تم اب ماں باپ کو رکھو۔‘
عدالت میں پیش ہونے والے اس مقدمے کی کہانی بھی بالی ووڈ کی فلم ’باغبان‘ سے مشابہت رکھتی ہے جس میں ماں باپ کا کردار امیتابھ بچن اور ہیما مالنی نے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں بھی والدین کی ریٹائرمنٹ اور بیٹوں کے برسرِ روزگار ہونے کے بعد والدین کے لیے بیٹوں کے گھروں میں جگہ تنگ ہو جاتی ہے اور بیٹے آپس میں ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالتے ہیں کہ ماں باپ کو تم رکھو اور اب تم رکھو۔