مہینے میں دو مرتبہ ہی بیوی سے ملنے گھر جاتا تھا


ما ما کا فون آیا، بو لی بیٹا۔۔۔ نغمہ کی طبیعت خراب ہے اسے ہاسپٹل لے کے جا رہی ہوں۔ فکر کرنے کی ضرورت نہیں میں اس کے پاس ہوں اس ی امی بھی سیدھ ھی ہاسپٹل آرہی ہیں میں کچھ کہنا چا ہتا تھا لیکن ما ما شا ید جلدی میں تھیں میرا جواب سنے بغیر ہی فون بند کر دیا میری شادیمیری پسند سے میری اپنی فیملی کے دو ر پار کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی نغمہ کو میں نے اپنےکزن کی شادی میں دیکھا۔

ان دنوں میں اپنی تعلیم ختم کر کے جاب کی تلاش میں تھا اور ما ما میرے لیے لڑ کی کی ۔۔ میں اپنے ما ما با با کا اکلو تا بیٹا تھا میں ایک بہت مہنگے ادارے کا پڑ ھا ہوا تھا اور مسلسل بہترین۔ کا میا بیاں حاصل کرتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا ما ما کے خیالات میرے بارے میں بہت اونچے تھے

بہت ہائی فائی گھر انے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑ کی جو کہ بہت خوبصورت بھی ہو لیکن میں نے اپنی ما ما کے سارے خوابوں کو توڑ کے رکھ دیا جب میں نے نغمہ کا نام ما ما کے سامنے لیا ما ما نے کوشش کی کہ مجھے باز رکھ سکیں لیکن میں بھی ضد کا پکا تھا آخر کار ما ما کو جا کے نغمہ کا ہاتھ ما نگنا پڑا اور بہت جلد نغمہ میرے گھر میں میری دلہن بن کے آ گئی میری ان دنوں نئی نئی جاب تھی اور میں تریننگ پہ دوسرے شہر تھا جب میں جا رہا تھا

تو میراد ل نغمہ کو چھوڑ کے جانے پہ رازی نہیں تھا ادھر ما ما بار ، بار بار مجھے حوصلہ دے رہی تھیں کہ آج تھوڑی مشکل دیکھ لو گے تو آ ئندہ زندگی میں اس کا پھل بھی پاؤ گے میں ادھر ہی تھا جب نغمہ نے مجھے ہماری پہلی خوشی کے بارے میں بتا یا لیکن ساتھ ہی ما ما کی بھی کال آ گئی اب دوڑے دوڑے نہ آ جا نا۔۔ میں اور تمہارے با با ہیں

اس کے پاس ویسے بھی ابھی اسے آ رام کی ضرورت ہے پہلے بچے کی مرتبہ میرے صرف دو چکر لگے یہاں تک کہ ہا سپٹل کا وقت آ گیا ماما کی وہی بات کہ ہم ہیں اس کے پاس تم فکر مت کرو مر د بنو اپنے اندر بر د باری پیدا کرو اور پھر ما ما کا فون آیا وہ مسلسل رو رہی تھیں بیٹی آ گئی ہے تمہارے گھر۔ میری دعا ئیں ساری رائیگاں چلی گئیں مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ خوشی کا اظہار کروں یا گم کا بہر حال جب گھر پہنچا تو ماما با با کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کے میں ان کے پاس ہی بیٹھ گیا

ما ما کی باتوں کا لب لباب یہ تھا کہ اس لڑ کی نے بیٹیاں ہی پیدا کر نی ہیں یہ اپنی ماں پہ گئی ہے نغمہ خود بھی چار بہنوں میں تیسرے نمبر پہ تھی میں کچھ دن رک کے واپس جاب پہ آ گیا میری تریننگ ختم ہو چکی تھی لیکن میری پہلی پوسٹنگ دوسرے شہر میں ہی ہوئی تھی پہلی بچی کے بعد ایک سال میں میرے صرف دو چکر گھر کے لگ سکے ۔

نغمہ مجھے بہت مر جھائی ہوئی اور چپ چپ نظر آ تی تھی وہ ویسے بھی صبر والی خاموش فطرت لڑکی تھی ۔ اب پھر وہ ماںبننے جا رہی تھی لیکن میرے اندر اگر کبھی کوئی لطیف جذبہ بیدار ہوا بھی تھا تو ما ما کی باتوں سے وہ پھر سے سو چکا تھا ما ما وہی بات کہتی رہتی میرا تو ایک ہی بیٹا ،۔۔ اللہ اب کے مجھے پو تا دے دیں، لیکن یہ تو اللہ کے کام جب رات کو ما ما کی کال آ ئی۔ تو وہ بہت دکھی تھیں۔ پھر سے بیٹی آ گئی ابھی تو تمہارے کھیلنے کے دن تھے دو بیٹیوں کا بو جھ میرے معصوم بیٹے پہ آن پڑا ۔

اب میں کیا کہتا۔ خاموشی سے سنتا رہا ما ما کہ رہی تھیں۔ ابھی آ نے کی ضرورت نہیں۔ کسی پروگرام کے ساتھ آنا۔ اگلے ہفتے میں بچی کےبال کٹوانے ہیں اس وقت ہی آ نا تا کہ بار بار نہ آ ن پڑے۔ میرے اندر تو کبھی کوئی جذبہ، کوئی محبت جا گی ہی نہیں تھی اگر کوئی جذبہ تھا بھی تو ما ما کی باتیں سن سن کے وہ سو چکا تھا۔

سو میں رک گیا آ ج میں گھر جا رہا تھا آج چھوٹی اکیس دنوں کی ہو چکی تھی جب میں گھر پہنچا تو ما ما نغمہ اور بڑی بچی کے ساتھ ہاسپٹل گئی ہوئی تھیں بڑی بیٹی صنوبر کی کھا نسی بہت بڑھ چکی تھی اس کا چیک اپ کر وانا تھا۔ چھوتی بے بی کے ساتھ ماسی گھر پہ تھیں۔ ماسی نے مجھے چھوٹی بچی کے پاس بیٹھنے کا کہااور خود میرے لیے کھانے کا انتظام کرنے چلی گئیں۔

میں تھوڑی دیر خالی ذہن بیٹھا رہا ھر کارٹ میں دیکھا تو گلابی کپڑوں میں لپٹی ہوئی گڑ یا آ نکھیں مو ندے پڑ ی ہوئی تھی۔ مجھے لگا اس کا ما تھا اور دہا نہ میرے جیسا ہے مجھے اس پہ بے اختیار پیار آ گیا۔ میں اس کو چھونے لگا تو ما ما کی باتیں ذہن میں گو نجنے لگیں، بیٹیاں بو جھ ہی تو ہو تیں ہیں۔ بیٹیاں تو ماں کی ہمدرد ہوتیں ہیں ہمارے بیٹے کا ساتھی تو اس کا بیٹا ہوگا۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا اور پھر سے کرسی پہ بیٹھ گیا تھوڑی دیر گزری تھی کہ گلابی بنڈل میں حرکت ہوئی اس پہ جھکا۔

گڑ یا نے آ نکھیں کھو لی تھیں اس کی آ نکھیں بھی میرے جیسی ہی تھیں وہ خاموشی سے مجھے دیکھ رہی تھی پھر ایک جما ئی لی وہ کچھ بے چین ہوئی اور پھر نیچے والا ہونٹ باہر نکال کے رونے کی تیاری کر نے لگی بے اختیار میں نے اپنی انگلی اس کے ہاتھ میں پکڑ ائی اس نے اپنی ننھی منی پوری جان کے ستھ میری انگلی کو پکڑا اور کھینچ کے اپنے منہ میں ڈال لیا چس چس کی آ واز کے ساتھ وہ میری انگلی کو چو سنا شروع ہو گئی۔ میرے دل کی برف جو نا نغمہ کے گرم گرم آ نسو ؤں سے پگھلی نا اس کے خاموش شکوؤں سے پگھلی۔

وہ اس ننھی منہ گرفت نے پگھلا دی بے اختیار میں نے چھوٹی سی گڑ یا کو اٹھا کے سینے سے لگا لیا میری آ نکھوں میں آنسو بہ رہے تھے گر یا مجھےمعاف کر دینا ما ما صنو بر اور نغمہ گھر آ چکی تھی۔ میں نے ما ما کے سامنے نغمہ سے کہا، یار اپنی تیاری کر لو کل انشاء اللہ ہم نکل جائیں گے۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ما ما، با با کب تک تمہاری ڈیوٹیاں دیتے رہیں گے ما ما نے کہا ابھی تو کچھ ہی دن ہوئے ہیں ڈ یلیوری کو ، لیکن میں نے جواب سو چا ہوا تھا

وہی جو ما ما مجھے اکثر کہتی تھیں سارے زمانے کی عورتیں بچے پیدا کرتی ہیں اس نے کوئی نیا کام تو نہیں کیا بس مجھے صرف یہ دکھ ہے کہ صنو بر کا یہ قیمتی وقت اب دو بارہ تو نہیں آ ئےگا وہ میں نے مس کر دیا لیکن چھوٹی کے ان خوبصورت دنوں کو میں انجو ئے کر رہا ہوں اس کا نام میں نے نوید سحر رکھا ہے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ کیا نام ہے یہ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ نوید سحر ہی تو میری زندگی میں نئی صبح کی نوید لائی ہے۔

میں جو ممی ڈیڈی بچہ تھا۔۔۔ اسی نے تو مجھے حوصلہ دیا کہ میں سب کو بتا سکوں کہ ان کا اور انکی ماں کا کفیل میں ہوں۔ اگر میں ہی انہیں تحفظ نہیں دوں گا تو کون ان کے سر پہ ہاتھ رکھے گا کون ان کا ہاتھ پکڑے گا۔ دنیا سے لڑ نا انہیں کون سکھا ئے گا۔ شکر ہے زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ ( صبح کا بھو لا جب گھر آ ئے تو اسے بھو لا نہیں کہتے

اپنا تبصرہ بھیجیں