میرے بچے بھوک کے باوجود کھانا نہیں مانگتے کہ کہیں میں خودکشی نہ کر لوں، بچوں کی بھوک ماں کیسے برداشت کرے معاشرے سے المناک سوال
گزشتہ کچھ دنوں سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پے در پے بے روزگار نوجوانوں کی خودکشی کے واقعات سامنے آ رہے ہیں-
بے روزگاری کیا خودکشی کی سب سے بڑی وجہ
جس میں سے پہلا واقعہ ایک صحافی کی خودکشی کا تھا جس نے اپنے گھر کی چھت سے پھندہ لگا کر بے روزگاری کے سبب خودکشی کر لی۔ جبکہ اسی طرح کا ایک اور واقعہ گزشتہ دن کراچی کے ایک بڑے شاپنگ مال میں پیش آیا جہاں اٹھائیس سالہ نوجوان جو گریجیوئٹ تھا مستقل طور پر بے روزگاری کے سبب نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھا- اس کو اس شاپنگ مال میں نوکری کے درخواست پر بلایا گیا تھا اور اس کے بھائی کے مطابق نوکری نہ مل سکنے پر اس نے خود شاپنگ مال کی اوپری منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی-
یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کے اندر بے روزگاری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ان واقعات سے ایک تاثر تو یہ سامنے آرہا ہے کہ مرد خصوصاً گھر کی ضروریات مکمل نہ کر سکنے کے سبب مایوسی کا شکار ہیں-
لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اور ان تمام واقعات میں ایک بات یکساں ہوتی ہے کہ معاشی مسائل انسان کو اس حد تک مجبور کر دیتے ہیں کہ ان کو مرنے کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتی ہے-
عورتیں بھی خودکشی کرنے پر مجبور
ایسی ہی ایک خاتون جن کا تعلق سوات کے علاقے مالاکنڈ سے تھا اور جن کی شناخت اس علاقے کے روائتوں کو سامنے رکھتے ہوئے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ان کی کہانی انڈیپیڈنٹ اردو میں شائع ہوئی ہے
35 سالہ مریم (فرضی نام) ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن والے گھر میں رہتی ہیں وہ آٹھ بچوں کی ماں تھیں اور ان کے دو بیٹے بھی تھے۔ سوات کے قدامت پرست ماحول کے سبب وہ معاشی حوالے سے مکمل طور پر اپنے شوہر پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں- لیکن بدقسمتی سے ان کے شوہر نشے کی عادت کے سبب اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے جس کے سبب ان کے گھر میں بچوں کا فاقہ کرنا ایک عادت بن گئی ہے-
مریم کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب انہوں نے بچوں کے کئی دن کی بھوک کو دیکھتے ہوئے اپنے شوہر سے کھانے کا تقاضا کیا تو اس کے جواب میں ان کے شوہر نے ان کو بجلی کی تاروں سے اتنا مارا کہ وہ کئی دن تک سو نہ سکیں-
لیکن اس کے بعد سے ان کے بچوں نے ان سے کھانا مانگنا چھوڑ دیا- معصوم اور خوبصورت بچیوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم اپنی ماں سے اس ڈر سے کھانا نہیں مانگتے ہیں کہ کہیں وہ دوبارہ خودکشی نہ کر لیں-
وگمہ فیروز خودکشی کی کوشش کرنے والی مریم (فرضی نام) سے بات چیت کرتے ہوئے (سکرین گریب)
بچوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہماری ماں نے خودکشی کر لی تو ہم بھی نہیں بچیں گے ہم بھی زہر کھا کر خود کو ختم کرلیں گے-
معاشی مسائل اور غریبوں کی حالت اور ان کی جانب سے کی جانے والی خودکشیاں ارباب اقتدار کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں اگر اس حوالے سے کچھ اقدامات نہ کیے گئے تو قیامت کے دن ان تمام افراد کا ہاتھ ارباب اقتدار کے دامن پر ہو گا-