پاکستان کی قومی مسجد “فیصل مسجد” سے جڑے چند دلچسپ حقائق۔۔۔
قارئین آج کے اس کالم میں ھم آپ کو پاکستان کی پہچان اور قومی مسجد شاہ فیصل مسجد سے متعلق انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات دیں گے جو شائد ہی اس سے پہلے آپ کی نظروں سے گزری ھوں۔ یہ صدر ایوب خان کے دور حکومت 1960 کی دہائی کی بات ہے جب پاکستان کا نیا دارالحکومت اسلام آباد وجود میں آ رہا تھا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس نئے دارالحکومت میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک ایسی مسجد تعمیر کی جائے جو نہ صرف اسلام آباد کے بلند ترین مقام پر تعمیر ہونے کے باعث پورے اسلام آباد کا مرکز نگاہ ہو بلکہ پاکستان کی شناخت بھی بن جائے۔ آج ہم اسے فیصل مسجد کے نام سے جانتے ہیں۔19 اپریل سنہ 1966 کو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز چھ روزہ دورے پر پاکستان پہنچے۔ ان کے اس دورے میں اسلام آباد کا دورہ بھی شامل تھا۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران انھوں نے شکرپڑیاں کی پہاڑی پر ایک پودا لگایا تو پاکستانی حکام نے اس موقع پر شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو بتایا کہ اسلام آباد میں ایک عظیم الشان جامع مسجد کی تعمیر کی منصوبہ بندی جاری ہے۔
شاہ فیصل نے اس مسجد کی تعمیر میں نہ صرف دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اسلام آباد میں تعمیر کی جانے والی مسجد کے تمام تر مصارف خود اٹھائیں گے۔ حکومت پاکستان نے ان کی یہ پیشکش منظور کرلی۔ مگر پاکستان کی ’قومی مسجد‘ کی تعمیر کے اخراجات کا ذمہ لینے والے سعودی بادشاہ شاہ فیصل اسے مکمل ہوتا ہوا نہ دیکھ سکے۔حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ مستقبل میں پاکستان کی شناخت بننے والی اس مسجد کے ڈیزائن کے لیے ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کروایا جائے۔اس مقابلے کا اہتمام سی ڈی اے اور ادارہ تعمیرات پاکستان نے بین الاقوامی انجمن ماہرین تعمیرات کی نگرانی میں کیا تھا۔ اس مقابلے میں صرف مسلمان آرکیٹکٹس کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی تھی۔
اس مقابلے میں 13 ممالک سے، جن میں پاکستان کے علاوہ ترکی، مصر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، افغانستان، شام، لیبیا، مراکش، عراق اور یوگوسلاویہ شامل تھے 39 نقشے موصول ہوئے تھے۔ ان نقشوں کی جانچ پڑتال کے لیے جیوری کا اجلاس 17 نومبر 1969 کو شروع ہوا۔ اس جیوری میں پاکستان، ترکی اور لبنان کے آرکیٹکٹس شامل تھے جبکہ سی ڈی اے کے چیئرمین اس جیوری کے صدر تھے۔ بعد ازاں فیصل مسجد کے نقشے کا بین الاقوامی مقابلہ ترکی کے معروف آرکیٹکٹ “ویدت دلوکے” نے جیت لیا ہے۔
جیوری نے متفقہ طور پر ترکی کے آرکیٹکٹ ویدت دلوکے کے نقشہ کو اول قرار دیا۔ انھوں نے 90 ہزار روپے کا پہلا انعام بھی جیتا جبکہ ترکی ہی کے دو آرکیٹکٹس مسٹر سنگیز عزیر اور مسٹر نہات بندوال کے نقشے بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن کے مستحق قرار دیے گئے۔ ان دونوں آرکیٹکٹس کو بالترتیب 30 ہزار اور 20 ہزار روپے کا نقد انعام دیا گیا۔ ویدت دلوکے کا ڈیزائن نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں پہلے سے موجود تمام مساجد سے بالکل مختلف تھا۔اس کا بنیادی خیال ایک وسیع خیمے سے اخذ کیا گیا تھا جس کے چاروں کونوں پر چار بلند و بالا مینار اس مسجد کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس ڈیزائن کی تعمیر خاصا مشکل کام تھا مگر پاکستانی تعمیراتی ادارے پاکستان نیشنل کنسٹرکشن کمپنی نے یہ چیلنج قبول کیا۔ مسجد کا مرکزی ہال ایک خیمے کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی اونچائی اندرونی جانب سے 140 فٹ اور بیرونی جانب سے 150 فٹ ہے۔ اس مرکزی ہال میں پاکستان کے دو ممتاز مصوروں صادقین اور گل جی نے بھی آیات ربانی کی خطاطی کا شرف حاصل کیا ہے۔مگر بد قسمتی کے ساتھ مارچ 1975 میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز قتل کر دیے گئے۔
ان کی ہلاکت کے بعد حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد ان کے نام سے معنون کردی جائے۔ چنانچہ 28 نومبر 1975 کو حکومت نے اس مسجد کا نام ’شاہ فیصل مسجد‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔
اکتوبر 1976 میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خالد بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ حکومت پاکستان نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کے نام سے معنون اس عظیم مسجد کا سنگ بنیاد نصب فرمائیں۔ چنانچہ 12 اکتوبر 1976 کو شاہ خالد نے ایک باوقار تقریب میں اس عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔
28 جنوری 1983 کو فیصل مسجد اسلام آباد میں پہلی نماز جمعہ ادا کی گئی، اس نماز کی امامت اسلامی یونیورسٹی کے رئیس کلیہ
مولانا حسین احمد حسان نے کی۔ 10 سال کی شب و روز تعمیر کی بعد 2 جون 1986 مطابق 23 رمضان المبارک 1406 کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یوں وہ خواب جو شاہ فیصل نے 1966 میں دیکھا تھا، دو دہائیوں کے بعد حقیقت کا روپ دھار گیا۔ فیصل مسجد 46 ایکڑ رقبے پر تعمیر کی گئی ہے۔مسجد کے مرکزی ہال کا رقبہ 82 ہزار 944 فٹ مربع فٹ ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال کے چاروں طرف چار مینار ہیں جن میں سے ہر ایک کی بلندی 285 فٹ ہے۔ اس کے علاوہ ہال کے اوپر نصب کئے جانے والے طلائی ہلال کی تنصیب کا کام بھی گل جی نے انجام دیا تھا۔ دیوار قبلہ میں مقام امامت کا تعین محراب کی بجائے ایک بڑی کھلی کتاب کی شکل کے ذریعے کیا گیا ہے۔
قارئین یہاں آپ کو بتاتے جائیں کے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ویدت کولے نے ہی پاکستان میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کی یاد میں تعمیر ہونے والے لاہور کے سمٹ مینار کا ڈیزائن بھی تیار کیا تھا۔ اس دیوار کی تزئین و آرائش ترکی سے درآمد شدہ ٹائلوں سے کی گئی ہے جن پر کلمہ توحید کندہ ہے۔ ایوان کے اندر ایک انتہائی خوب صورت ساڑھے چھ ٹن وزنی فانوس آویزاں ہے جو ہمارے دوست ملک چین کے مسلمان کاریگروں کی مہارت کا شاہ کار ہے۔اس فانوس میں 11 سو بلب نصب ہیں جو اس ایوان کو روشنی عطا کرتے ہیں۔ ایوان کے اندر مشرقی دیوار کے ساتھ خواتین کے لیے ایک علیحدہ گیلری تعمیر کی گئی ہے جو ایوان کے فرش سے تقریباً 8 فٹ بلند ہے۔ اس گیلری میں تقریباً دو ہزار خواتین بیک وقت نماز ادا کر سکتی ہیں۔
گنیز بک آف ریکارڈز کے 1992 کے ایڈیشن میں شاہ فیصل مسجد، اسلام آباد کو دنیا کی سب سے بڑی مسجد تسلیم کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔اس ہال میں ایک لاکھ اور ہال سے باہر صحن اور میدان میں مزید دو لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔مگر اب شاہ فیصل مسجد دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کے اعزاز سے محروم ہو چکی ہے اور گنیز بک آف ریکارڈز کے مطابق وہ اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی اور پاکستان کی دوسری مسجد ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی مسجد بحریہ ٹائون کراچی میں تعمیر کی گئی ہے۔ 14 اگست 1987 کو یوم آزادی کے موقع پر حکومت پاکستان نے مسجد کے آرکیٹکٹ ویدت دلوکے کو ستارہ پاکستان اعزاز عطا کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی وفات 21 مارچ 1991 کو ہوئی۔ وہ یادگاری ڈاک ٹکٹ جو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے فیصل مسجد، اسلام آباد کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب کے موقع پر تیار کیا تھا، بہت مقبول ہوا۔ اس یادگاری ڈاک ٹکٹ پر فیصل مسجد کی تصویر بنی ہوئی تھی۔