پہلے بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، لیکن نبی ﷺ نے عزت دی ۔۔ آج کی عورت اپنے حق کے لیے سڑکوں پر کیوں ہے؟
زمانہ قدیم میں عورت کو عزت نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن نبی ﷺ کی پیدائش کے بعد ہر عورت کو عزت بھی ملی، وقار بھی ملا، محبت بھی ملی اور جائیداد میں حصہ بھی ملا۔ ہر چیز کا لحاظ کیا گیا۔ ماں کے روپ میں عورت کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی، بہن اور بیٹی کے روپ میں احترام اور رحمت کے سائے بکھیر دیے گئے۔ عورت کی ذات کئی صدیوں سے سوالیہ نشان ہے۔ پہلے جب عزت نہیں دی جاتی تھی تو بھی عورت تکلیف میں رہی۔ لیکن جب عزت دی گئی تو بھی تکلیف میں رہی۔ مگر کیوں؟ ہر انسان کی کچھ حدود ہیں جن میں رہ کر وہ آگے بڑھتا ہے ترقی کرتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی حدود کی چادر سے آگے بڑھ جائیں تو تکلیف تو ہوتی ہی ہے۔ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کبھی اس حوالے سے کسی نے سوچا؟
عورت مارچ کے خلاف بھی لاکھوں لوگ ہیں اور اس کے حامی بھی لاکھوں ہیں۔ لیکن دراصل عورت مارچ کی ضرورت کیوں پڑی؟ ہم یہاں کسی کو برا یا کسی کا ساتھ دینے کے لیے تمہید نہیں باندھ رہے۔ جب کسی کے ساتھ کچھ غلط ہو کچھ برا ہو تو وہ اپنے حقوق کی بات کرتا ہے۔ گھریلو تشدد میں جب آئے روز خواتین کو مارا پیٹا جاتا ہے ان کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے، بیٹی کی پیدائش پر یا تو بیٹیوں کو مار دیا جاتا ہے یا اس کا قصور وار ایک عورت کو سمجھا جاتا ہے یا ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انتشار تو پھیلتا ہی ہے۔ اس میں اگر ہر مرد یا معاشرے کا ہر فرد اپنی سوچ اور اپنے مذہب کے قاعدے کو دیکھ لے تو شاید کسی ایسی عورت مارچ کی ضرورت ہی نہ پڑے اور پھر وہیں دوسری جانب یہ تمام قواعد ایک عورت دیکھ لے، اس کو سمجھے اس پر عمل کرے تو خود بخود معاشرے میں عورت کو ایک مقام ملنا شروع ہو جائے گا۔
ہم روزانہ سنتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیوی کو مار دیا، فلاں نے بیٹی کو مار دیا، غیرت کے نام پر بہن کا قتل کردیا، شوہر نے بیوی کو ایسے مارا کہ وہ زخمی ہوگئی اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ کوئی بھی انسان خود سے یہ کام نہیں کرتا، غلطی یقیناً دونوں جانب سے ہوتی ہے۔ اگر غلطیوں پر مل بانٹ کر بیٹھ کر بات کرلی جائے تو گھرانے بھی بسے رہیں گے، طلاق کی نوبت بھی نہیں آئے گی اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔
صرف مذہب کی بنیاد پر بات نہ کی جائے تو انسانیت کا تقاضہ بھی یہی کہتا ہے کہ آپ کو اپنے لیے اپنے حق کے لیے آواز اس صورت میں اٹھانی ہے جبکہ آپ دیکھ رہے ہوں کہ آپ کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہو۔ لیکن اگر عورتوں کے حقوق کے تحفظ میں ایسے سلوگن کو ہوا دی جائے جس میں معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کا جنازہ نکالا جائے تو اس میں احتیاط برتنا بھی ضروری ہے۔