کسی کو اپنا راز بتانا چاہیے یانہیں؟
بدنامی کا ڈر تو بس اسے ہوتا ہے۔ جس میں نام کمانے کی امید نہیں ہوتی۔ اگرآپ جنونی ہیں تو ایک دن میں دو دن کا کام کریں گے ۔ اگر آپ منظم ہیں تو ایک دن میں دس دن کا کام کریں گے۔ لیکن اگر صاحب بصیرت ہیں تو ایک دن میں سو دنوں کاکام بھی کرسکتے ہیں۔ جو وقت گز ر گیا، اس کویاد کرکے کچھ اصول بنالیں جو وقت باقی رہ گیا ہے
وہ بہتر ہوجائےگا۔ جو وقت کی قدر کرتا ہے ۔ زمانہ اس کی قدر کرتا ہے۔ اسے اپنا راز مت بتاؤ جس کا کوئی راز تمہارے پاس نہ ہو۔ اگر تمہیں سب راستے بند نظرآئیں تو وہ تمہیں ایسا پوشیدہ راستہ دکھا دے گا۔ جس کے بارے میں کوئی جانتے نہ ہوگا۔ خاموش نعمت بڑے بندے کی نشانی ہے۔ ہمارے نوجوان کو کیر ئیر پلاننگ اور بامقصد زندگی کی اہمیت نہیں بتائی جاتی ۔ اس لیے وہ ڈگریوں کے انبار لگا لیتے ہیں ۔
لیکن عملی زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا کرم ہوجاتا ہے۔ تو وسیلے بھی بن جاتے ہیں۔ اور مانگنے کا طریقہ بھی آجاتا ہے۔ بڑاانسان وہ ہے جو دوسروں کی ترقی دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ ہمیشہ یہی سوچ رکھو کہ مجھے میرے اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے اگر مجھے اعمال کے مطابق ملتا تو میرے پاس کچھ بھی نہ ہوتا۔ آپ کے تمام شعبوں کی کامیابیاں کسی کام کی نہیں ، جب آپ کا مالک اللہ تعالیٰ ہی آپ سے راضی نہیں۔
م و ت کے لیے ہروقت تیاررہو یہ تمہارے سر پڑکھڑی ہے۔ یا درکھنا انسان کا دکھ انسان کو سیکھانے کےلیے ملتا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ انسان اس دکھ کی وجہ سے روتا رہتا ہے انسان دکھ اور درد کی وجہ سے کتنا بھی روتار ہے لیکن ختم نہیں ہوگا۔ کیونکہ دکھ انسان کو رلانے کے لیے نہیں بلکہ انسان کو سیکھانے کےلیے آیا
جب تم اس دکھ سے سیکھ لو گے جو وہ تمہیں سیکھانا چاہتا ہے تو تمہارا دکھ خود بخود ختم ہوجائےگا۔ زندگی اتنی دکھی نہیں مرنے کو جی چاہے۔ بس لو گ اتنے دکھ دیتے ہیں کہ جینے کو دل نہیں کرتا۔ دکھ انسان کو یاریت کی دیوار کی طرح ڈھانپ دیتا ہے یا چٹان کی طرح کھردار اور سخت بنا دیتاہے۔
حق پر قائم رہنےسے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ دنیا والوں پر اپنا دکھ ظاہر مت کرو، کیونکہ وہ وہاں چوٹ ضرور مارتے ہیں جہاں سے پہلے زخم ہو۔ لو گ ہمارے اندر ہمارا دکھ تلاش نہیں کرتے ، ان کو اس تماشے کی کھوج ہوتی ہے۔ جو ہمارے ساتھ ہوا۔ دکھ کی سختیاں چہرے سے تو رخصت ہوجاتی ہیں۔ لیکن انسان کے اندر داخل ہو کر اس کے گوشے گوشے کو ویران کردیتی ہیں۔