ہر چیز میکے کی کیوں اچھی ہوتی ہے، مرد کے بعد عورت نے ایسا جواب دے دیا کہ سب ہی مردوں کے دانت کھٹے کر دیے
گزشتہ دنوں ایک صاحب کی ویڈيو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی جن کا یہ ماننا تھا کہ پاکستان میں مردوں کے جلد مرنے کا بنیادی سبب کوئی اور نہیں بلکہ خواتین ہوتی ہیں جو کہ سارا اچھا کھانا خود کھا جاتی ہیں اور مردوں کو ہر وقت ذہنی دباؤ کا شکار رکھتی ہیں-
ان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مرد جو ہر کام بیویوں سے پوچھ کر کرتے ہیں وہ بھی جلد مر جاتے ہیں جب کہ وہ مرد جو عورتوں سے ہر بات کا مشورہ نہیں کرتے ہیں طویل عمر پاتے ہیں-
مردوں کے ان الزامات پر ابتدا میں تو خواتین کے ساتھ خاموشی اختیار گئی مگر جیسے کہ خواتین کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتی ہیں تو بالآخر ایک خاتون کی جانب سے ان الزامات کا جواب ایک ویڈيو کے ذریعے دے دیا گیا ہے-
خواتین کا جواب شکوہ
میکے کی ہر چیز کیوں اچھی ہوتی ہے
ان خاتون نے مرد کی ریسرچ کو ادھورا قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ان صاحب کی ادھوری ریسرچ کو وہ دلیل کے ساتھ مکمل کرنے کا عزم رکھتی ہیں-
ان صاحب کے اس الزام کے جواب میں کہ قصائی، نائی یہاں تک کہ حلوائی میکے کے قریب ہی کیوں اچھا ہوتا ہے- اس کے جواب میں ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک عورت اپنی زندگی کا ابتدائی وقت میکے میں گزار کر آتی ہے اور اس وجہ سے اس کو ہر چیز وہیں کی اچھی لگتی ہے-
یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے کہ بیوی جتنا بھی اچھا کھانا بنا لے مگر مرد کو ماں کے ہاتھ کا کھانا ہی پسند ہوتا ہے- یہ بات بالکل اس طرح ہوتی ہے جس طرح مرد کو ماں کے ہاتھ کے کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے اس وجہ سے اس کو وہی ذائقہ پسند آتا ہے- اسی طرح عورت کو بھی میکے کے قریب کی ہر چیز کی عادت ہوتی ہے اس وجہ سے اس کو وہی پسند آتا ہے-
بوٹی یہ والی بناؤں یا وہ والی
مردوں کے گھر کے ہر معاملے میں بیوی سے مشورہ لینے کے حوالے سے ان خاتون کا یہ کہنا تھا کہ جب گھر چلانا عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے- کھانا بنانا بیوی کے ذمے ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی لازمی بیوی کو ہی کرنا پڑتا ہے نا کہ بوٹی گول کٹنی چاہیے یا کس گوشت کا قیمہ بننا چاہیے-
کیوں کہ مرد کا کام تو صرف فرمائش کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کیا کھانا ہے اس وجہ سے جو مرد بیوی سے پوچھ لیتے ہیں وہ اپنے لیے ہی آسانی پیدا کر رہے ہوتے ہیں- اس میں شکایت کرنے کی کیا ضرورت ہے-
بیوی مرد کے دفتر کے کام میں تو دخل اندازی نہیں کر رہی ہے نا بلکہ اس گھر کے معاملات میں مشورے دے رہی ہے جو اس نے چلانا ہے اس بات کو مردوں کو اچھے طریقے سے سمجھنا چاہیے-
سامان کی خریداری میں بیوی کا عمل دخل
بائیک پر بیوی کو بٹھا کر سامان لے کر آنے کے الزام کے جواب میں ان خاتون کا یہ کہنا تھا کہ زيادہ تر مرد ایسے ہوتے ہیں جن سے دھنیا منگوایا جائے تو وہ اس کی جگہ پودینہ اٹھا کر لے آتے ہیں تو اس صورت میں بار بار اس پریشانی سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ بیوی کو بائک پر پیچھے بٹھائیں- اور اس کے مشورے سے اس کے ساتھ مل کر خریداری کر لیں اور اپنی زندگی کو آسان بنائيں-
بیوی کو مہنگے بوتیک کے جوڑے کیوں دلوانا ضروری
ان صاحب کو یہ بھی شکایت تھی کہ عید کے موقع پر بیوی تو بوتیک کے مہنگے ترین کپڑے پہنتی ہے جب کہ شوہر بے چارے سادے سے کپڑے پہنتے ہیں- تو اس کے جواب میں ان خاتون کا یہ کہنا تھا کہ سارے رمضان کے مہینے میں خواتین عبادات کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد کے منہ کے مزے پورے کرنے کے لیے اور ان کے آرام و سکون کے لیے طرح طرح کے جتن کرتی ہیں سحری اور رمضان میں طرح طرح کے پکوان بناتی ہیں-
اس کے بعد اگر اس کے انعام کے طور پر عید کے موقع پر بوتیک کا برانڈڈ جوڑا پہن لیتی ہیں تو اس میں اعتراض کی بات تو کوئی بھی نہیں ہوتی ہے-
بازار سے نان لینے مرد ہی جائے گا
اس کے بعد بازار سے نان لینے کے لیے لمبی لائن میں کھڑے ہونے کے الزام کے حوالے سے ان خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ مرد اگر بازار سے نان لاتا ہے تو سالن تو عورت ہی گھر پر بناتی ہے نا جس کے ساتھ وہ نان کھایا جاتا ہے-
اس وجہ سے مرد حضرات کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی توازن کے ساتھ چلتی ہے اور مرد عورت کے رشتے کا یہ توازن ہی درحقیقت ان کے تعلق کی خوبصورتی کا سبب ہے اس وجہ سے کسی ایک کو الزام دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے-