یہاں 15 منٹ میں ہاتھ سوج جاتے ہیں اور تیز بولنے سے انسان مر جاتا ہے ۔۔ سردی کا جہنم کہلانے والے سیاچن میں فوجی جوان اپنی زندگیاں کیسے داؤ پر لگاتے ہیں؟
ہم عام پاکستانیوں کو موسم سرما میں اگر تھوڑی سی بارش ہو جائے یا پھر ہوا چلنے لگے تو شدید سردی لگتی ہے مگر انکا بھی تو سوچیں جو نہ تو سانس کھل کر لے سکتے ہیں اور نہ ہی ٹھیک سے سو سکتے ہیں۔https://www.youtube.com/embed/wT8bapVWN8Y
جی ہاں یہ بات ہو رہی سردی کا جہنم کہلائے جانے والے بلند ترین محاز جنگ سیاچن کی، آئیے جانتے ہیں فوجی یہاں کیسے رہتے ہیں؟
دستانے نہ پہننے سے ہاتھوں کا سوجنا :
اس بلند ترین محاز جنگ پر پاکستانی فوج آج سے نہیں بلکہ 13 اپریل 1984 سے تعینات ہے یہ جگہ سطح سمندر سے 5 ہزار 7 سو 63 میٹر اونچائی پر واقع ہے۔
یہاں اگر کوئی جوان دستانے نہ پہنے تو اس کے ہاتھوں میں خون جم جاتا ہے، زیادہ سے زیادہ جگرے والا جوان بھی ہو تو وہ صرف 15 منٹ بغیر دستانے کے کم و بیش ہی رہ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب تک دستانے نا پہننے کی وجہ سے کئی جوان شہید ہو چکے ہیں اور یہاں بندوقیں بھی جم جاتی ہیں جنہیں کسی طریقے سے گرم کر کے دوبارہ کارآمد بنایا جاتا ہے۔
آکسیجن کی کمی کی وجہ سے موت ہو جانا :
اس بلند ترین مقام پر بہت ہی زیادہ تجربہ کار جوان وقت گزار سکتے ہیں کیونکہ یہاں آکسیجن صرف 9 فیصد ہوتی ہے تو ایسی صورتحال میں تیز بولنا یا پھر زیادہ گہری سانس لینے سے انسان موت کے منہ بھی جا سکتا۔
اس جان لیوا مقام پر انسان سردیوں میں درجہ حرارت منفی 70 اور گرمیوں میں منفی 35 ہوتا ہے۔
ایسے میں یہاں نہانا موت کو سرعام چیلنج دینے والی بات ہوتی ہے۔ اس مقام پر ہر فوجی 3 ماہ ضرور ڈیوٹی کرتا ہے۔
سیاچن پر ہر جوان صرف 2 یا 3 گھنٹے ہی کیوں سوتا ہے؟
مزید یہ کہ سونا تو ہر آدمی کیلئے ضروری ہے تو ایسے میں پاک فوج اپنے ہر جوان کو ایک سلیپنگ بیگ دیتی ہے۔ جس کی مدد سے یہ انتہائی سرد مقام پر بھی سو سکتے ہیں۔
لیکن صرف 2 سے 3 گھنٹے وہ اس لیے کیونکہ اسی بیگ میں فوجی جوان کے سانس لینے اور انگیٹھی جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔
یعنی آکسیجن کی اور بھی کمی واقع ہو جاتی ہے تو سانس گھٹتا ہے اور انسان کے مرنے خطرات زیادہ ہو جاتے ہیں۔
سردی کی وجہ سے بڑی بڑی بیماریاں لگ جانا :
سیاچن پر رہتے ہوئے تمام فوجی جوانوں کا سطح سمندر سے انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے وزن انتہائی کم ہوجاتا ہے اور انہیں پھر بھوک بھی کم ہی لگتی ہے۔ پھر کم کھانے یا موسم کی شدی کی وجہ سے جوان بیمار پڑ جاتے ہیں۔
جتنا بھی طاقتور جوان ہو وہ وہاں جا کر پہلی دفعہ بیمار تو ضرور ہوتا ہے اس کے علاوہ انہیں کم دیکھائی دینا، کم سنائی دینا اور بہت سے چیزیں اور باتیں بھول جانا، اور اس جیسی دیگر بیماریاں لگ جاتی ہیں۔
سیاچن پر ڈیوٹی کرنے والے جوانوں پر ایک دن کا 3 کروڑ کیوں خرچ ہوتا ہے؟
ملک کی حفاظت کرنے والے تمام سیاچن پر تعینات جوانوں کی دیکھ بھال پر ایک دن کے 3 کروڑ روپے خرچ ہو تے ہیں اور ایک جوان کے مکمل سامان پر 50 ہزار سے زائد روپے سرف ہو جاتے ہیں۔
اتنی بڑی رقم اس لیے سرف ہوتی ہے کیونکہ انہیں موسم کے حساب سے وردی، موزے، جوتے، چشمہ، ٹوپیاں اور کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جاتیں ہیں۔
ہزاروں میٹر کی بلندی پر انہیں کھانا کیسے پہنچایا جاتا ہے؟
اب آپ سوچ رہے ہوں گے 5 ہزار 7 سو 63 میٹر کی بلندی پر انہیں کھانا کیسے فراہم کیا جاتا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ انہیں کھانا ہیلی کاپٹر کے زریعے سے ہر وقت پہنچایا جاتا ہے۔
مگر جب موسم زیادہ خراب ہو تو یہ بغیر کھانا کھائے اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں کیونکہ فوجی انتظامیہ کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہیلی کاپٹر کا موسم کی وجہ سے انجن نہ بند ہو جائے۔
ویسے بھی انہیں جو کھانا بھیجا جاتا ہے وہ ہوتا تو ٹین کے ڈبوں میں ہے مگر یہ پھر بھی جم جاتا ہے جسے اگر ہتھوری سے بھی توڑا جائے تو برف بنا جوس، پانی یا پھر کھانے کی دیگر اشیاء ٹوتی نہیں۔
اب ایسے میں ملک کا دفاع کرنا کسی واقعی دل گردے والے بندے کا ہی کام ہو سکتا ہے۔