یہ چیزیں بیچتا ہوں تا کہ گھر والوں کے لیے آٹا لے جا سکوں ۔۔ سنسان گلی میں بیٹھ کر سموسہ، رول بیچنے والا یہ حافظ قرآن بچہ کون ہے؟

میں صبح مدرسے پڑھتا ہوں اور پھر شام 8 بجے تک سموسے بیچتا ہوں۔ یہ الفاظ آپ نے سوشل میڈیا پر آج کل میں بہت سی جگہ پڑھے ہوں گے، جی ہاں آپ نے صحیح سمجھا ہم یہاں بات کر رہے ہیں ننھے حافظ قرآن بچے کی جو سوشل میڈیا پر آج کل خوب وائرل ہے۔

آئیے جانتے ہیں یہ خوددار حافظ قرآن بچہ کون ہے اور اسے آخر کیا مجبوری ہے جو یہ اس چھوٹی سی عمر کیوں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔

اس بچے کا نام منیب الرحمان ہے اور یہ پاپوش نگر کا رہنے والا ہے۔ یہ معصوم بچہ پاپوش نگر کی ایک سنسان گلی میں رات 8 بجے تک سموسے رول بیچتا ہے۔ عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے والدہ اسے بازار میں جا کر یہ اشیاء بیچنے جانے نہیں دیتی تو یہ اس لیے ایک سنسان گلی میں بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کرتا ہے۔

اگر سموسے، رول فروخت ہو جائیں تو اچھا ہے اور اگر فروخت نہ ہوں تو رات کو کھانے میں یہی کھا لیتے ہیں گھر والے، یہی نہیں بلکہ یہ سب کچھ گھر میں والدہ بنا کر دیتی ہیں تب میں فروخت کرتا ہوں۔

اس معصوم بچے کا کہنا تھا کہ وہ صبح 7 بجے سے شام 4 بجے تک یہ سموسے اس لیے بیچتا ہے کہ گھر کے مالی حالات کچھ زیادہ ٹھیک نہیں، والد کا سہارا بننے کیلئے یہ کام کرتا ہوں۔

کیونکہ ابو کیلے کی ریڑھی لگاتے ہیں مگر وہ بھی تب جب انکی طبعیت ٹھیک ہو تو، پھر وہ تقریباََ 700 روپے کما لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جب اس بچے سے یہ پوچھا گیا کہ آپ ان رول ،سموسوں سے کتنا کما لیتے ہیں۔

تو منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ بس 150 یا پھر 200 کماتا ہوں اور اس سے گھر والوں کیلئے آٹا لے جاتا ہوں اور دیگر بچوں کی طرح یہ پیسے خود کھانے پینے میں نہیں لگاتا۔

مزید یہ کہ جس حضرت نے انکی تصویر سنسان گلی میں بیٹھے ہوئے سوشل میڈیا پر شیئر کی یہ انٹرویو بھی انہی حضرت نے کیا تو دوران انٹرویو اس شخص نے کہا کہ یہ خوددار بچہ کہتا ہے کہ آپ نے میری تصویر کیوں سوشل میڈیا پر شیئر کی۔

جس پر انہیں بتایا گیا کہ ہماری پاکستانی عوام کو آپکا محنت کرنے کا انداز بہت پسند آیا ہے اور وہ اب آپکی مدد کرنا چاہتے ہیں تا کہ آپکے حالات بہتر اور اچھے ہو سکیں، زندگی کی مشکلات کچھ کم ہو سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں