آنسو کیا ہے؟
انبیائے کرام ؑ رونے کو نبوت کے وقار کےمنافی نہیں سمجھتے تھے ۔ حضرت داؤد ؑ خدا کے حضور میں بے تحاشا روتے فرمایا کرتے ۔ میرا سر آنسوؤں سے لبریز اور میری آنکھیں آنسوؤں کا فوارہ ہے۔ ہمارے نبی حضور اقدس ﷺ امت کو اللہ کی محبت اور آخرت کے خوف سے رونے کی تعلیم دی۔
حضور نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کوئی ایسا وقت نہیں گزرا۔ جس میں آپ روئے نہ ہوں۔ رونے کے فضائل پر کئی حدیثیں وارد ہوئیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس مومن بندے کی آنکھوں سے خدا کے خوف سے آنسو بہہ پڑے۔ چاہے وہ مکھی کے سر کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ رخسار تک جا پہنچے۔ اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو ح رام کردیتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں حضر ت عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! مجھ کو ایسی دو آنکھیں عطافرما۔
جوآپ کے خوف سے خوب رونے والی ہوں۔ اور خشیعت الہیٰ کے آنسوؤں سے قلب کو شفاء دینے والے ہوں۔ اس سےپہلے کہ آنسو جہنم کےعذاب سے خ ون ہوجائیں ۔ نبی کریم ﷺ ایک نوجوان صحابی کے پا س سے گزرے ۔ وہ قرآن پا ک کی تلاوت کررہے تھے۔ وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے پھر جب آسمان پھٹ جائے توو ہ سرخ چمڑے کی طرح گلابی ہوجائےگی۔ یہ آیت پڑھ کر وہ صحابی ٹھہر گئے ۔ اور ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
اور آنسو بہاتے بہاتے دم گھٹنے لگا۔ روتے جاتے اور کہتے جاتے ۔ ہائے اس دن میرا کیا بنے گا؟ جس دن آسمان پھٹ جائے گا۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کی گریہ آہ زاری سن کر ارشاد فرمایا کہ : اے نوجوان ! اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تمہارے رونے پر فرشتے بھی رو رہے تھے۔ آج ایسی تلاوت کو ہمارے کان تر س گئے ہیں۔ جو جذبات میں طلاطم برپاکردے۔ جس سے سن کر دل کانپ جائے او رآنکھیں بہہ پڑیں۔
آنحضرت محمد ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ : قیامت کے دن تین آنکھوں کے سوا ہر آنکھ روتی ہوگی۔ اور وہ یہ ہیں۔ ایک وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتی ہے۔ دوسری وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے ح رام کردہ مقام سے بچتی رہی ۔ اور تیسری وہ آنکھ جس نے فی سبیل اللہ پہرہ دیا۔ا ور جاگتی رہی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رونا تین طرح کا ہوتا ہے۔ اللہ کے ع ذاب کے خوف سے، اللہ کی ناراضگی کے خطرے سے ، اللہ کی جادوئی کے ڈر سے۔ پہلا رونا گن اہوں کے کفارے کا ذریعہ ہے۔
دوسر ارونا عیبوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ہے اور تیسرا رونا محبوب کی رضا کے ساتھ دوستی کانصیب ہونا ہے۔ گن اہوں کے کفارے کا نتیجہ یہ ہے کہ آخرت کے ع ذاب سے نجات ملتی ہے۔ عیبوں کے دھل جانے کا نتیجہ جنت میں ہمیشہ کی نعمتوں کاملنا اور اقامت ہے۔ اور اونچے اونچے درجات کا ملنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوستی کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھی بشارتیں ملتی ہیں۔
انسانی فطرتوں اور مزاج میں جس قدر جذبات واحساسات ہیں۔ ان کا اظہار زندگی کے مختلف مراحل میں ہوتا رہتا ہے۔ خوشی و غمی انسانی فطرت کے اہم جذبات ہیں۔ جن کا اظہار بھی خالق کائنات کے متعین حدود کے اندر عین فطرت ہے اور پھر یہ مختلف جذبات واحساسات شدت کی منزل پر ایک دوسرے کا علاج بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہنسی اور خوشی کو غم کا علاج سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح جب غم کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ تو آنسوؤں کا بہانا دل کا علاج بن جاتا ہے۔ غم اور اذیت آنسوؤں کے ذریعہ زائل ہوجاتی ہے۔
آنسو خدا کی وہ نعمت ہے۔ جو غم کی شدت میں انسان کی دماغی توازن کو بگاڑنےسے بچاتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے جب انسان پر غم کا شدید حملہ ہوتا ہے اور دماغ کا دفاعی نظام ناکام ہوتا ہے۔ توآنسوؤں کا سیلا ب غم کے طوفان کو بھگا کر لے جاتا ہے۔جس کے بعد تسکین قلب اور راحت محسوس ہوتی ہے۔ نیز دماغی انتشار سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ آنسو غیر متوقع ناخوشگوار صدمات کو دور کرنے کی بھی زبردست قوت رکھتے ہیں۔