اخراج اَز جنت

فریب کے ساتھ قسم کھائی تو اآدمؑ نے خدا کی قسم پر یقین کرلیا اور میوہ چکھا:۔

جیسا کہ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے کہ:۔

ترجمہ:۔

“پس جب چکھا درخت کا میوہ ظاہر ہوگئے واسطے انکے شرمگاہ  ان کے”

پہلے تو نوری لباس پہنا ہوا تھا ایک دوسرے  کے بدن نظر نہ آتے تھے، جب کپڑے اُترگئے تو پھر ایک دوسرےکے سامنے بے پردہ ہوگئے، ان عس کر مجاہد سے روایت لایا ہے کہ جب حضرت آدمؑ کو نکالنے کا حکم ہوا تو خدا کے حکم سے جبرائیل ؑ اور میکائلؑ آئے تاج کوسر سے اُتارا، کمر بند کمر سے کھولا اور برہنہ کردیا اور عربی زبان موقوف کرکے سریانی زبان جاری کردی، توبہ قبول ہونے کے بعد عربی زبان میں پھر باتیں کرنے لگے (عزیزی)

پھر جنت کے درختوں کے پتوں سے بدن سے  کو چھپانے لگے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

ترجمہ:۔

“اور شروع کیا اپنے بدنوں پر جنت کے پتے جوڑنے”

ان عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ وہ درخت انجیر کا تھا جس سے اپنا بدن چھپارہے تھے اوربدحواسی کی وجہ سے اِدھراُدھر بھاگنے لگے، چونکہ آدمؑ کا قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے اور گھنے تھے ایک درخت کےساتھ اُلجھ گئے، کہنے لگے مجھے چھوڑ، درخت فوراً بول اُتھا میں نہ چھوڑوں گا، پھر رب العزت کی طرف سے ندا آئی کہ اے آدمؑ کیا مجھ سے بھاگتے ہو، آدمؑ نے عرض کی کہ یارب میں تجھ سے حیا کررہا ہوں، کیونکہ میں برہنہ ہوگیا ہوں پروردگارِ عالم جل جلالہ نے فرمایا کہ اے آدمؑ میں نے تم کو جنت بخش دی تھی صرف ایک درخت سے منع کیا تھا آدمؑ نے عرض کی کہ اے رب تیری عزت کی قسم میرے تو گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ تیری قسم کھال کر کوئی جھو بولے، خداوندِ کریم نے فرمایا اب میں تم کو زمین پر اُتاروں گا:۔

جیسا کہ فرمان ہے “وَقُلنَا اھبِطُوا” (ترجمہ) کہ دیا ہم نے اُتر جاو زمین میں وہاں ٹھہرو، ارشاد ہے:۔

ترجمہ:۔

“اور تمھارے لئے زمین میں ٹھہرنے کی جگہ ہے اور فائدہ اُٹھانے کی ایک وقت تک یعنی موت تک”

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ حضرت آدمؑ عصر سے بعد سورج کے غروب تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے ہیں اور ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتے ہیں کہ نویں یا دسویں ساعت حضرت آدمؑ کا اخراج ہوا جن سے اوراُن کے ساتھ ایک شاخ تھی جنت کے درختوں کی اور جنت کے درخت کا تاج سرپر تھا۔ اور سُدیؒ کا قول ہے کہ حضرت آدمؑ ہند میں اُترےآپ ؑ کے ساتھ حضر اسود بھی تھا اور جنتی درختوں کے پتے تھے جن کو ہند میں پھیلا دیا، پھر اُن سے خوشبودار درخت پیدا کئے۔

ان عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتے ہیں کہ آدمؑ ہندوستان کے دحنا شہر میں اُترے، پھر آدم ؑ سخت پریشان تھے، تو جبریل نے آکر اذان دی تو اذان میں جب آدمؑ نے محمدﷺ کا نام مبارک سنا تو آپﷺ کی بڑی تسلی ہوگئی۔(تفسیر عزیزی)

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ حوّا جدہ میں اُتریں، اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فصلے پریستان میں پھینکا گیا اور سانپ اصبہان میں۔

بعض روایات میں ہے کہ طاوس بھی تھی جو کابل میں اتاری گئی تھی۔اس لئے بعض روایات میں ہے کہ سانپ اور مور بھی شیطان کے داخلے  میں شامل تھے اور آدمؑ اور بی بی حوّا کے ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سرجھکا ہوا تھا اور ابلیس کی اُنگلیوں میں انگلیاں ڈالی ہوئی تھی اور آسمان کی طرف نظر جمائی ہوئی تھی، پروردگارِ عالم جل جلالہ نے آدمؑ سے کہا کہ جب میں نے تم کو اس درخت سے منع کیا تھا تو پھر ک یوں کھایا، حضرت آدمؑ نے عرض کی یارب مجھے حّوا نے مشورہ دیا تھا، پروردگارِ عالم جل جلالہ نے فرمایا کہ میں نے حّوا کے حمل کے زمانے کی سختی درد تکلیف اور وضع حمل وقت کا درد و کرب اور ولادت کے وقت کی تکلیف اور تم اور تمہارا بچہ دونوں رویا کرو گے، یہ مصیبتیں دوں گا (ابن کثیر)

اور حیض کی آلودگی اور خاوند کے حکم میں رہنا اور اس کی تابعداری کرنا، پھر بی بی حوّا کا آدم ؑ سے جُدا ہونا اور اس گناہ کو دُنیا میں مشہور کرنا، رنج و غم محنت اور مشقت سے گزران کرنا یہ سب ایک غلطی کی شامت سے ہیں۔

پروردگارِ عالم جل جلالہ نے فرمایا کہ اے آدمؑ میں نے تجھے کہا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے جیسا کہ فرمان ہے:۔

ترجمہ:۔

“ہم نے کہ دیا کہ اے آدم یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے خیال رکھنا کہ کہیں تم دونوں کو جنت سے نکال نہ دے پھر تم مشقت میں پڑ جاو گے”

یہاں  تو کھانا پینا بغیر مشقت اور محنت کے ہے، یہاں نہ بھوکے رہو گے نہ  پیاسے، پھر  بھوک پیاس آجائے گی۔

حُلیہ

ابن ابی حاتم میں ہے کہ سرورِ کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت آدمؑ گندمی رن کے تھے اور لمبے لمبے بالوں والے اور بڑے قد و قامت والے تھے اور زیادہ بالوں والے اس لئے درختوں سے الجھ گئے تھے (ابن کثیر) ان عساکر نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت کی ہے کہ جنت سےنکلنے کے بعد حضرت آدمؑ نے اس قدرگریہ وزاری کی کہ تمام بنی آدم اور گریہ کرنا حضرت داود ؑ کے ساتھ اس کے کریں پھر بھی حضرت آدمؑ کا گریہ کرنا زیادہ ہوجائے گا اور بیہقی نے شعب الایمان میں بریدہ رضی اللہ تعالیٰ سے مرفوعاً روایت کی ہے ، اگر برابر کئے جائیں آنسو آدمؑ کے ساتھ تمام اولاد کے تو آدمؑ کے آنسوں زیادہ ہوں گے اور آدمؑ نے دنیامیں آکر سب سے پہلےبہی کا میوہ کھایا تو پیٹ میں درد ہوا، پھر نہایت حیران اِدھر اُدھر پھرنے لگے اور معلوم نہ تھا کہ یہ تکلیف کیسے رفع ہوگی، حضرت جبرئیل آئے تو قضائے حاجت کا طریقہ بتایا جب آپ کو براز میں بدبو محسوس ہوئی تو پھر اور زیادہ گریہ زاری شروع کردی کہ 70 دن روتے رہے کیونکہ جنت میں مُنہ کی خوشبو سے میوے ہضم ہوتے تھے

اپنا تبصرہ بھیجیں