اغیار سے تعاون
رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ک ی تو یہ ایک بہت نازک سفر تھا ۔یہ سفرمکہ کے مشرکین کے ظلم و تشدد کی وجہ سے کرنا پڑا تھا۔اس کے باوجود اس سفر کے لئے آپ نے جس گائڈ کا انتخاب کیا وہ مکہ کا ایک غیر مسلم عبداللہ بن اریقط تھا۔اسی غیرمسلم گائڈ نے آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے آپ کو مکہ سے مدینہ پہنچایا۔
اس سنت سے معلوم ہوا کہ دوسروں سے تعاون لینے میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق کرنا درست نہیں۔اس طرح کے تعاون کے معاملے میں اہیلت دیکھی جائے گی نہ کہ رشتہ اور مذہب۔
رسول اللہ ﷺ نے یہی پالیسی ہمیشہ اختیار کی۔مثال کے طور پر بدر کی لڑائی کے بعد سترکی تعداد میں غیرمسلم گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔یہ لوگ اس زمانہ کے لحاظ سے پڑھے لکھے تھے۔چنانچہ آپ نے اعلان کیا کہ ان سے جو شخص مدینہ کےدس بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے اس کو ہم رہا کردیں گے۔اس طرح گویا اسلام کی تاریخ میں خودرسول اللہ کے حکم سےجو پہلا اسکول کھولا گیا اس کے تمام کے تمام ٹیچرز غیر مسلم تھے۔
زندگی کےمعاملات میں اس اصول کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔کسی کام میں ساتھی اور کارکن کا انتخاب کرتے ہوئے اگر یہ دیکھاجائے کہ وہ اپنے مذہب کا ہے یا غیر مذہب کا یا اپنی برادری کا ہے یا غیر برادری کا، تو اس سے کام کا معیار ختم ہوجائےگا۔اس طرح کبھی کوئی کام اعلیٰ معیار پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
صحیح طریقہیہ ہے کہ کام کو کام کے طورر دیکھا جائے۔یہ دیکھا جائے کہ جو کام کرنا ہے اور اس کام کے لئے زیادہ بہتر اور زیادہ کارآمد لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میں میرٹ کی بنیاد پر زیادہ کارآمد کون لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میرٹ کی بنیاد پرافراد کا انتخاب کیا جائے نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔
میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کرنے سے اصل کام کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور جب کسی اورچیز کو انتخاب بنایا جائے تو اسی چیز کو فروغ حاصل ہوگا جس کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔