انتظار کیجئے
نومبر1991میں میرا ایک سفر بمبئی کے لئے ہوا تھا۔وہاں میری ملاقات حاجی اکبر خان صاحب سے ہوئی۔وہ بمبئی کے پرانے تاجرہیں۔انہوں نے ایک نیا آئٹم تیار کرایا اور اس میں اپنی بہت بڑی رقم لگا دی۔یہ آئٹم خلاف اندازہ مارکیٹ میں نہ نکل سکا۔حاجی صاحب پر اس نقصان کا بہت برا اثرپڑا۔ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ان کو ذیابطیس کا شکایت ہوگئی۔وغیرہ۔
حاجی صاحب کی رہائش گاہ پر ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ان کی باتیں سنتا رہا اور دل کے اندر ان کے لئے دُعا کرتا رہا۔آخر میں جب روانگی کا وقت آیا تو میں نے ایک کاغذ لیا۔اس پر ایک جملہ لکھا۔اور اس کو بند لفافہ میں دیتے ہوئے ان سے کہا کہ اس کو میرے چلے جانے کے بعد کھول کر پڑھ لیں۔وہ جملہ یہ تھا “آپ اپنے معاملہ کو غم کے خانہ میں ڈالنے کی بجائے انتظار کے خانہ میں ڈال دیجئے”۔
اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد 8 جون 1993 کی9 ڈاک سے حاجی اکبرخان صاحب کا ایک خط ملا۔اس خط کا مضمون یہ تھا “9 نومبر1991 کے روز آپ میرےغریب خانہ پر تشریف فرما تھے، اور میری رودادِ غم سن کر مجھے یہ نسخہ کیمیا عطا کرگئے تھے، ” آپ اپنے معاملہ کو غم کے خانہ میں ڈالنے کی بجائے انتظار کے خانہ میں ڈال دیجئے”
یقین کیجئے، آپکے اس جملہ کا مجھ پر حیرت انگیز اثرہوا۔نفسیاتی طور پر صبرکی بلندیوں کو چھونے کی کوشش میں، میں اپنے غم کو کافی ہلکا محسوس کرنے لگا۔یہاں تک کہ اآض جب جون 1993 کا رسالہ میرے سامنے ہے اور سفر نامہ کے تحت اس واقعہ کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، الحمداللہ، اسی “صبر” یعنی انتظار کے خانہ میں ڈالنے والے عمل کی وجہ سے اس نقصان کی کافی تلافی ہوچکی ہے۔حالات نے خوش گوار کروٹ لی ہے اور قوی امید ہے 1991 میں نظر آنے والا نقصان 1993 میں انشاء اللہ بھر پور منافع کی صورت میں اجاگر ہوگا۔یہ ایک درست عظیم ہے کہ دنیا کے معاملہ میں صبر کا جب یہ صلہ ہے تو آخرت کے معاملہ میں صبر کا کس درجہ کا صلہ ہوگا۔ (اکبر خان، مجگائوں، بمبئی10)