ایک سچی کہانی
آج میں آپ کو ایک عورت کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ عورتوں کے عالمی دن کے روز میں سمجھ رہا تھا وہ فرئیر ہال آئے گی۔ اس کے ہاتھ میں پلے کارڈ ہوگا۔ پلے کارڈ پر نعرہ لکھا ہوگا، ’’عورت، عورت کا استحصال مت کرو‘‘۔ مگر وہ نہیں آئی۔ خواتین، مرد اور بچوں کے ہجوم میں، میں اسے ڈھونڈتا رہا۔ تلاش کرتا رہا۔ اس عورت کے بارے میں، میں اتنا
کچھ جانتا ہوں جتنا میں اپنے بارے میں جانتا ہوں۔ اس کی کوئی بات، کوئی خوشی، کوئی دکھ مجھ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ چار برسر روزگار بیٹوں کی ماں ہے۔ وہ اتنی زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہے، مگر وہ سگھڑ ہے۔ اس کامیاں یعنی شوہر، اس کا مجازی خدا ایک سرکاری محکمے میں بڑا افسر لگا ہوا تھا۔ آئے دن ملکی اور غیرملکی دوروں پر نکل پڑتا تھا۔ اپنی خوبصورت، تیز طرار سیکرٹری کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ہماری کہانی کی عورت طوطے نہیں پالتی تھی۔ ہم بھی طوطے نہیں پالتے۔ مگر زندگی میں کبھی کبھار ایسی کچھ انہونی واردات ہوجاتی ہے کہ کبھی نہیں پالنے کے باوجود ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔
ہماری کہانی کی عورت کے ہاتھوں کے طوطے تب اڑے جب اس کے میاں صاحب یعنی شوہر نامدار نے اپنی تیزطرار پڑھی لکھی سیکرٹری سے شادی رچالی، وہ بھی بڑی دھوم دھام سے۔ جوان اور خوبصورت سیکرٹری صاحبہ نے ادھیڑ عمر کے باس سے شادی کرنے کی حامی تب بھری تھی کہ جب وہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا اور چار بچوں سے جان چھڑائے گا۔
ہاتھوں کے طوطے اڑ جانے کے بعد ہماری کہانی کی عورت خوبصورت اور تیزطرار سیکرٹری کے پاس گئی تھی۔ اس کے آگے گڑگڑائی تھی۔ مگر بے سود۔ اڑ جانے کے بعد ہاتھوں کے طوطے پھر لوٹ کر نہیں آتے۔ ہماری کہانی کی عورت کو طلاق ہوگئی۔ وہ اپنا اور چار بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے، ان کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگی۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں، اور مہینے برسوں میں بدلتے رہے۔ آج کے چھوٹے بچے کل بڑے ہونے گئے۔ ماں بوڑھی ہوتی گئی۔
بچے تعلیم مکمل کرتے گئے اور ملازمت سے لگتے گئے۔ ماں کی خدمت کو بندگی سمجھنے لگے۔ ماں کو مکمل آرام مہیا کرنے کے لئے انہوں نے گھرکے کام کاج کیلئے ماسیاں اور ملازم رکھے۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے دو نرسیں رکھیں۔ ماں کی خوشی اور خوشنودی کے لئے چاروں بھائیوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ خوشحالی کے ساتھ نئے ملنے والے آنے جانے لگے۔ نئے دوست بنے۔ جان پہچان بڑھتی گئی۔
ماں نے ایک شام چائے پیتے ہوئے چاروں بیٹوں کو چونکا دیا۔ اپنے بڑے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے ماں نے کہا: میں نے عبدالشکور کے لئے ایک لڑکی پسند کی ہے۔ میں نے لڑکی کے والدین سے بات پکی کرلی ہے۔ اپریل کی پندرہ تاریخ عبدالشکور کی شادی ہوگی۔ عبدالشکور کی شادی ہوگئی۔ بہو گھر میں آئی۔ بہو کے ساتھ اس کے مرد اور خواتین دوست بھی گھر میں آنے جانے لگے۔ وہ نہ دن دیکھتے تھے اور نہ رات۔ آ دھمکتے تھے۔
پورے گھر میں دن دناتے پھرتے تھے۔ ایک مرتبہ ماں نے بہو کو سمجھانے کی غلطی کی۔ بہو کا جواب سن کر دنگ رہ گئی۔ بہو نے کہا: دیکھئے آنٹی۔ میں بہو بن کر آئی ہوں۔ آپ کی غلام بن کر نہیں آئی ہوں۔ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارتی ہوں۔ ماں ہکا بکا رہ گئی۔
ایک روز عبدالشکور ماں کے پاس آیا، اور کہا: ماں، روزینہ الگ اور خودمختار ہوکر رہنا چاہتی ہے۔ ہم نے ایک اپارٹمنٹ لے لیا ہے۔ وہاں شفٹ ہورہے ہیں۔عبدالشکور کے چلے جانے کے بعد ماں نے دوسرے بیٹے عبدالغفور کو بلاکر اپنے پاس بٹھایا اور کہا: عبدالغفور، گھر سونا سونا ہوگیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم شادی کرلو۔ عبدالغفور نے سر جھکاتے ہوئے کہا: آپ لڑکی پسند کرلیں۔ میں شادی کرلوں گا۔ نہیں بیٹا۔ ماں نے کہا: اپنی پسند کی لڑکی لاکر میں نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ لڑکی تم پسند کرو۔
عبدالغفور نے شرماتے ہوئے پڑوس میں رہنی والی ایک لڑکی کا نام لیا۔ ماں نے لڑکی کے والدین سے بات کی۔ اور اگلے ماہ عبدالغفور کی شادی اس لڑکی سے ہوگئی۔ نئی نویلی دلہن رات بھر فلمیں دیکھتی تھی اور دوسرے روز دوپہر کے بارہ بجے نیند سے اٹھتی تھی۔ ناشتہ اپنے بیڈ روم میں منگواتی تھی۔ دوپہر کا کھانا رات آٹھ بجے یوٹیوب پر پروگرام دیکھتے ہوئے کھاتی تھی۔ اور رات کا کھانا رات کے دو بجے اپنے بیڈ روم میں کھاتی تھی۔
ایک روز دلہن نے اپنی ساس سے کہا: آپ جب دیکھو منہ بسورے رہتی ہیں۔ میں آپ کی وجہ سے اپنی عادتیں بدل نہیں سکتی ہم نے الگ مکان لے لیا ہے۔ عبدالغفور اور میں یہاں سے جارہے ہیں۔ عبدالغفور مع بیوی کے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
ایک روز گم سم بیٹھی ہوئی ماں سے تیسرے بیٹے عبدالقدیر نے کہا: ایک بہت اچھی لڑکی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مگر اس نے ایک شرط رکھی ہے۔ کہتی ہے کہ ہم یہ مکان اس کے نام کردیں۔ ماں نے بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا: ہم اپنا مکان اس کے نام کردیتے ہیں۔ اور پھر اس عورت نے اپنا مکان اپنے تیسرے بیٹے عبدالقدیر کی بیوی کے نام کردیا۔ نئی دلہن اتنا بڑا مکان دیکھ کر خوش ہوئی۔
ایک روز اس نے عبدالقدیر سے کہا: تمہاری ماں منحوس ہے۔ منہ بسورے چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے۔ میں نے منحوس سے کہہ دیا ہے کہ وہ اس گھر سے چلی جائے۔ وہ عورت اپنے چوتھے بیٹے عبدالرحیم کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ عبدالرحیم نے چھوٹا گھر لیا اور وہ اپنی گم سم ماں کے ساتھ وہاں رہنے لگا۔ ایک مرتبہ دو روز سے عبدالرحیم گھر نہیں آیا۔
ماں پریشان تھی۔ تیسرے روز ماں کو عبدالرحیم کا خط ملا۔ خط میں لکھا تھا: ماں مجھے دفتر میں اپنی کولیگ سے بے انتہا محبت ہوگئی ہے۔ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کسی صورت تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ ہم نے الگ مکان لے لیا ہے۔کل ہماری شادی ہے۔
دعائوں میں ہمیں یاد رکھنا۔ فکر مت کرنا۔ ہم چاروں بھائی خرچے کے لئے تمہیں کچھ نہ کچھ بھیجتے رہیں گے۔ اگر کبھی وقت ملا تو تم سے ملنے بھی آئیں گے۔ یہ ساری باتیں میں اس لئے جانتا ہوں کہ اس عورت کا چوتھا بیٹا، عبدالرحیم میں ہوں۔