ایک کڑوی کہانی
ہمارےایک پرائمری ٹیچر دوست نے کلاس میں بچوں ساتھ تصویر بنا کر فیس بک پہ پوسٹ کی۔ ماسٹر صاحب کی تصویر کو صرف تین لائکس ملے۔ ایک سال بعد اسی دوست نے مقابلے کا امتحان پاس کر کے اے ایس پی کا یونیفارم پہن کر فیس بک پہ اپنی تصویر پوسٹ کی۔ تو دو ہزار لوگوں نے لائک کیا اور تصویر کے نیچے ہزاروں محبت بھرے کمنٹس آئے۔ کئی حضرات نے فون نمبر بھی طلب کیا۔مجھے یہ تصویر دیکھ کر اپنا وقت یاد آ گیا۔ کافی عرصہ پہلے میں نے بزنس شروع کیا اور بزنس بہت زیادہ کامیاب ہوا،ہر طرف بلے بلے ہو گئی،پیسے کی ریل پیل، مجھے رات دن اتنے فون آتے کہ کان درد کرنا شروع ہو جاتے۔
ان دنوں مجھے لگا جیسے سارا ملک ہی ہمارا رشتہ دار ہے۔ جب گاؤں جاتا تو دور کھڑے لوگ بھی بھاگ کر مجھ سے سلام لینے آتے۔ محبتوں ، وفاداریوں نے مجھے ہر طرف سے گھیر لیا۔ اپنے گرد لوگوں کا ہجوم دیکھ کر مجھے خیال آتا کہ اگر میں الیکشن لڑوں تو آسانی سے جیت سکتا ہوں۔ مگر اسلام آباد جیسے بے حس اور پتھر دل شہر میں دل نہ لگا۔ میں نے اسلام آباد کی افسری چھوڑ دی۔ اور لاہور آ کے ایک محکمے میں چپڑاسی بھرتی ہو گیا۔ کیونکہ لاہور کی چپڑاسی مجھے اسلام آباد کی افسری سے زیادہ راحت والی لگی۔ سب رشتے داروں دوستوں کو اس کی خبر مل گئی۔ میں 6 ماہ چپڑاسی رہا۔ یقین مانیں ان چھ ماہ میں مجھے کسی ایک بندے نے بھی فون کر کے حال نہیں پوچھا۔ حتی کہ گھر والوں نے بھی کبھی فون نہیں کیا۔ کہ میں زندہ ہوں کہ مر گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اس دنیا میں اناتھ ہوں۔ گاؤں آیا تو سلام دعا کی رسم کو بھی ناپید پایا۔ تب مجھے اس حقیقت کا پتہ چلا کہ لوگ آپ سے نہیں آپ کے سٹیٹس سے محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ کا سٹیٹس اچھا ہے تو غیر بھی آپ کو اپنا کہتے ہیں۔ اگر سٹیٹس اچھا نہیں تو اپنے بھی پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ محبتوں میں ذات پات کی رکاوٹیں بھی تب آتی ہیں جب آپ کا سٹیٹس اچھا نہیں ہوتا۔ اگر آپ بڑے آفیسر یا مالدار انسان ہیں تو آپ کی ذات نہیں پوچھی جاتی۔ ذات بات تو دور کی بات ہے۔
لوگ اچھے سٹیٹس والے کافر انگریزوں سے شادیاں کروا لیتے ہیں۔ آپ کا سٹیٹس اچھا ہے تو بہت سے لڑکے لڑکیوں کو آپ سے سچا پیار ہو جاتا ہے۔ اکثر محبتوں کے شکار لڑکے مجھے بتاتے ہیں کہ شاہ جی لڑکی نہیں مان رہی، لڑکی کے گھر والے نہیں مان رہے۔ تو میں کہتا ہوں اپنا سٹیٹس بہتر کرو۔ پیسہ اکٹھا کرو ۔بڑی گاڑی لو۔ بڑا بنگلہ خریدو۔ اگر کوئی پڑھا لکھا عاشق ہو تو میں الو کے خ ون سے تعویز لکھنے کی بجائے اسے سی ایس ایس کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ بہت سے عاشقوں نے سی ایس ایس کی کوشش میں پی ایم ایس پاس کیا تو محبوب خود چل کے قدموں میں آئے۔محبتوں اور رشتوں کی بندش اچھا سٹیٹس ہی کھول سکتا ہے۔میں اکثر بڑی گاڑیوں میں دیکھتا ہوں کہ گنجے ٹکلے مردوں کے ساتھ خوبصورت حسینائیں جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ حسینائیں ان مردوں کے اچھے سٹیٹس کی کرامات ہوتی ہیں۔آسمان پہ جوڑے فقط غریب لوگوں کے بنتے ہیں۔ امیر لوگ اپنے جوڑے اپنی مرضی سے بناتے ہیں۔ اگر افسر کا بھدا سا بچہ افسر کے ساتھ آفس آ جائے تو ماتحت عملہ اس بچے سے لاڈ پیار کرتے تھکتا نہیں۔ اگر کبھی چپڑاسی کا خوبصورت بچہ اس کے ساتھ آ جائے تو کوئی اسے منہ نہیں لگاتا۔ لوگ اپنے موبائلوں میں اپنے سے بڑے سٹیٹس والے لوگوں کے نمبر محفوظ کرتے ہیں۔ اور ان نمبروں کو ڈائریوں میں بھی درج کر لیتے ہیں کہ موبائل گم ہونے کی صورت میں بڑے لوگوں کا رابطہ نمبر کھو جائے۔
مزدوروں، پاپڑ بیچنے والوں کے نمبر کوئی محفوظ نہیں کرتا۔ خواہ وہ دل کے جتنے مرضی اچھے ہوں۔کوئی بھی متقی غریب مزدور سے ہاتھ نہیں ملانا چاہتا۔ بلکہ شرابی کبابی امیر چوہدری سے ہاتھ ملا کر لوگ کئی دن تک ہاتھ نہیں دھوتے کہ چوہدری صاحب کے لمس کی خوشبو ختم نہ ہو جائے۔ الکاسب حبیب اللہ ۔ اللہ کے دوست سے کوئی دوستی نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی بات کو اہمیت آپ کا سٹیٹس دیکھ کے دی جاتی ہے۔ مقرر غریب ہو تو کوئی اس کی باتیں نہیں سنتا۔ وہی باتیں اگر کوئی اچھے سٹیٹس والا کرے تو سب نہایت توجہ سے سنتے ہیں۔ اور واہ واہ کرتے ہیں۔میرے ایک دوست نے ایک شعر لکھا۔ اس شعر کے نیچے اپنا نام لکھ کے پوسٹ کر دیا۔ کسی نے لائک نہیں کیا۔ اس نے ڈیلیٹ کر دیا۔ کچھ دن بعد اسی شعر کے نیچے احمد فراز لکھ کر پوسٹ کیا۔ لوگوں نے خوب داد دی۔ آپ جانتے ہیں اکثر شاعر ، ادیب ، گلوکار ، اداکار جو مشہور ہوئے وہ اچھے سٹیٹس والے تھے۔ لاکھوں عظیم لوگ گمنامیاں اوڑھے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا سٹیٹس اچھا نہیں ہوتا۔آپ کا سٹیٹس اچھا ہوگا تو انصاف والے ترازو کے پلڑے آپ کی مرضی کے مطابق جھکیں گے۔
اچھے سٹیٹس سے آپ کے گھر ، عزتیں محفوظ رہتی ہیں۔ ورنہ غریب کے گھر کی چار دیواری ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔اگر سٹیٹس اچھا ہو تو انسان کی برائیوں کو فیشن کا نام دے کر سراہا جاتا ہے۔ اگر سٹیٹس اچھا نہیں تو آپ کی اچھائیاں بھی تہمت کا روپ دھار لیتی ہیں۔سٹیٹس صرف دنیا میں ہی عزتیں نہیں بناتا۔ بلکہ آخرت میں بھی کامیاب کرواتا ہے۔ جب کوئی کرپٹ امیر افسر ، بزنس مینز، لٹیرے سیاستدان، گنڈے ، کنجر ، بدمعاش، غریبوں یتیموں کے حق کھانے والے چوہدری مرتے ہیں تو ہر مسجد میں ہر منٹ بعد اعلان ہوتا ہے۔ کہ چوہدری صاحب رضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔ لوگ رکشوں میں سپیکر رکھ کر دور دراز علاقوں میں اعلان کرتے ہیں۔ ان کے بڑے جنازے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے مولوی جنازہ پڑھنے سے پہلے لمبی تقریر کرتے اور داڑھی پہ ہاتھ پھیر کے سب کو بتاتے ہیں کہ ماشاءاللہ اتنا بڑا جنازہ ہو تو بندہ ویسے ہی بخشا جاتا ہے۔ پھر جنت کی رنگینیوں پہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔چوہدری کی رسم قل پہ بھی مولوی صاحب پورا زور لگا کے اسے بخشوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لمبی لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ امیر لوگ قرآن خوانی کے لیے رینٹ پہ حفاظ اکرام منگوا لیتے ہیں۔
اور جب کوئی غریب مرتا ہے تو مسجد والے کہہ دیتے کہ سپیکر خراب ہے اعلان نہیں ہو سکتا۔ جنازے میں چند لوگ ہوتے اور مولوی بھی بغیر تمہید کے جنازہ پڑھا کر جان چھڑوانے کی کوشش کرے ہیں۔ اگر تھوڑی بہت تمہید پڑھے بھی تو دوزخ کی باتیں کی جاتیں ہیں۔ اور غریب کی لاش کو نشان عبرت بتایا جاتا ہے۔غریب کی رسم قل پہ مولوی بغیر گلا پھاڑے سورت کوثر پڑھ کے چلے جاتے ہیں۔ عید کی نماز بھی اس وقت تک نہیں پڑھائی جاتی جب تک اچھے سٹیٹس والے لوگ صفیں چیرتے ہوئے آ کر پہلی قطار میں نہ کھڑے ہوں۔ افطاریوں میں اچھے اسٹیٹس والے بے روزہ دار لوگوں کے لیے رنگ برنگے کھانوں سے آراستہ علیحدہ دستر خوان لگائے جاتے ہیں۔ جہاں عجوہ کھجوریں پڑی ہوتی ہیں۔اور غریب متقی روزہ داروں کو سڑی بسی کھجوروں اور پھیکی سکنجبین کے گلاس سے افطاری کروائی جاتی ہے۔
محفل نعت کے مہمانان خصوصی بھی اچھے سٹیٹس والے لوگ ہوتے ہیں۔ جن سے نعت خواں بار بار اجازت لیتے ہیں کہ چوہدری صاحب حکم کریں تو نعت شروع کروں۔ جب چوہدری نئے نوٹ پھینکتا تو نعت خواں کی آواز سے مزید عشق رسول جھلکتا ہے۔حرام مال کما کے اچھے سٹیٹس والے لوگ الحاج بن جاتے ہیں۔ اور بغیر ناغہ کیے ہر سال حج کر کے سال بھر کی لوٹ مارمعاف کروا آتے ہیں۔ اور پھر جگہ جگہ بتاتے پھرتے ہیں سوہنا جسے بلائے وہی وہاں جا سکتا ہے ۔ سوہنے کا بڑا کرم ہے مجھ پہ۔ ہر سال بلا لیتا ہے ۔ ماشاءاللہ بڑے گھروں پہ ہی لکھا جاتا ہے۔ غریبوں کی جھونپڑیوں پہ نہیں۔خدا کے گھروں میں بھی اچھے سٹیٹس والوں کی ہی تختیاں لگتی ہے۔ کبھی کسی غریب نمازی کی نہیں۔ انہیں پیروں فقیروں کے فیض جاری رہتے ہیں جن کا سٹیٹس اچھا ہوتا ہے۔
جو بہن بھائی امیر ہو جاتا وہ غریب بہن بھائیوں کو منہ نہیں لگاتا کہ کہیں یہ بچوں کا رشتہ یا پیسے نہ مانگ لیں۔ اگر آپ کی بیٹی اچھی پرسنیلٹی والی ہے اور اچھی پوسٹ پہ ہے تو اسے ہزاروں رشتے آئیں گے۔ سسرالیوں کو اس کے سنسکار بھی اچھے لگیں گے۔ آج کل لوگ لڑکی نہیں بلکہ اچھے سٹیٹس والی اے ٹی ایم مشین اور بہترین لذت کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔ دوستو یہ بے ترتیب باتیں کرنے کا مقصد آپ کو سمجھانا ہے کہ اگر آپ زندگی کی اس دورڈ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اپنا سٹیٹس اچھا بنائیں۔ یہ احساس ، محبت جیسے جذبات کو خود پہ حاوی نہ ہونے دیں۔ خود غرض بنیں ۔ دیکھیے گا کامیابی آپ کے جوتے بھی چومے گی۔ احساس محبتوں کے چکروں میں اپنا سٹیٹس نہ خراب کریں۔ ورنہ زندگی ذلالت میں گزرے گی۔ خواہشیں ادھوری رہ کر اور تکلیف دیتی ہیں۔