ایک گاؤں میں ایک نیک خاتون اتنی سخی تھی اس نے لوگوں کے لئے مہمان خانہ بنوایا
ایک گاؤں میں ایک نیک خاتون رہتی تھی وہ بہت زیادہ سخی تھی وہ اتنی نیک دل اتنی مہمان نواز اور اس قدر غریبوں پر خرچ کرنیوالی تھی کہ لوگ اسے حاتم طائی کی بیٹی کہتے تھے وہ گاؤں سڑک کے قریب ہی تھا ۔ پہلے تو کوئی مستقل بس سٹاپ نہ تھا مگر دیہاتی لوگوں کی آمدورفت کیوجہ سے آہستہ آہستہ سڑک کے اوپر بس سٹاپ بن گیا
اندر کے علاقوں کے دیہاتی لوگ پانچ دس میل کر وہاں آتے کہ خریدو فروخت کیلئے بس پر بیٹھ کر شہر کو جائیں گے ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بس کا وقت ختم ہوجاتا تو بیچاروں کے پاس وہاں رہنے کیلئے انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اسی حال میں بیٹھ کر رات گزارنے بھوکے پیاسے رہتے اگر عورتیں ساتھ ہوتیں تو اور زیادہ پریشانی ہوتی اس نے محسوس کیا کہ یہاں تو ان کیلئے کوئی بندوبست ہونا چاہیے چنانچہ اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ کیوں نہ ہم لوگوں کی سہولت کیلئے ایک مہمان خانہ بنوادیں تاکہ وہ لوگ جو رات کو آگے یا پیچھو نہیں جاسکتے ۔ وہ آسانی سے رات گزار سکیں اور وہ اگلے دن اپنے کام کیلئے روانہ ہوجایا کریں گے خاوند کو یہ بات پسند آئی چنانچہ اس نے مہمان خانہ بنوایا اور ایک آدمی رکھ کر ان کیلئے کھانا پکانے کا بندوبست کردیا ۔ اب لوگ آنے جانے لگے جو آگے پیچھو نہیں جاسکتے تھے وہ رات کے وقت وہیں سے کھانا کھاتے اور آرام سے سوجاتے پھر رات گزار کر اپنے کام کیلئے چلے جاتے پھر کسی خیر خواہ نے اس کے خاوند کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کی بیوی تو آپ کو کنگال کردے گی روزانہ اتنا اتنا کھانا پکتا ہے اور فالتو لوگ آکر کھا جاتے ہیں ایسی سخاوت کا کیا فائدہ جب
دوستوں نے خاوند کو بار بار مشورہ دیا تو خاوند کے دل میں بھی یہ بات آگئی کہ بھئی یہ تو واقعی لوگوں نے تماشا بنا لیا ہے ۔ چنانچہ اس نے ایک دن فیصلہ کرلیا کہ مہمان خانہ بند کردیا جائے بیوی کو پتہ چلا تو وہ پریشان ہوئی کہ جب پروردگار نے ہمیں اتنی زمینیں دی تھیں کہ ہماری اپنی گندم سے ہی روٹی بنتی تھی اور سارا سال مہمان نواز ی کا ثواب ملتا تھا۔ا ب یہ نیکی کا ذریعہ بند ہوجائے گا لیکن جب خاوند نے کہہ دیا تو بیوی خاموش ہوگئی نیک بیویاں پھر بات کرنے کیلئے موقع ڈھونڈا کرتی ہیں جھگڑے نہیں کیا کرتیں چنانچہ وہ موقع کی تلاش میں رہی ایک دن خاوند سے کہنے لگی کہ آج میری طبیعت کچھ اداس سی ہے گھر میں رہ رہ کر تنگ سی آگئی ہوں کیوں نہ زمینوں سے ذرا ہو آؤں اس نے کہا بہت اچھا خاوند اسے اپنی زمین پر لے کر چلا گیا وہاں کنواں باغ اور فصلیں تھیں۔وہ تھوڑی دیر چلی پھری اور پھر آکر کنویں کے کنارے پر بیٹھ گئی اور کنویں کے اندر دیکھنا شروع کردیا خاوند بھی ادھر ادھر پھرتا رہا کافی دیر کے بعد کہنے لگا نیک بخت چلیں دیر ہورہی ہے کہنے لگی بس چلتے ہیں ۔پھر کنویں کے اندر
دوبارہ جھانکنا شروع کردیا کنویں میں دیکھتی رہی بالآخر خاوند نے کہا کہ خدا کی بندی کنویں میں کیا دیکھ رہی ہو کہنے لگی کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ خالی ڈول پانی میں جارہے ہیں اور بھر بھر کر واپس آرہے ہیں۔ مگر کنویں کا پانی جیسا ہے ویسا ہی ہے اس نے کہا خدادی بندی تو اگر سارا دن اور ساری رات بیٹھی رہے گی تو یہ پانی ایسے ہی رہے گا خالی ڈول بھر بھر کے آتے رہیں گے مگر پانی میں کمی نہیں آئے گی جب خاوند نے یہ بات کہی تو اس نیک دل خاتون نے کہا اچھا کنویں کا پانی ختم نہیں ہوتا اس نے کہا کہ واقعی کنویں کا پانی ختم نہیں ہوتا یہ سن کر وہ کہنے لگی اللہ نے ہمارے گھر کے اندر بھی ایک کنواں جاری کیاتھا۔لوگ خالی پیٹ آتے تھے اور پیٹ کا ڈول بھر کے جاتے تھے تمہیں کیوں ڈر ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس کنویں کے پانی کو کم کردیں گے بیوی کی بات سن کر خاوند کے دل پرایسی چوٹ پڑی کہ کہنے لگاکہ میں مہمان خانے کو دوبارہ جاری کرتا ہوں چنانچہ وہ خاتون جب تک زندہ رہی اس علاقے میں وہ مہمان خانہ اسی طرح جاری رہا۔