بینظیر نے جب یاسر عرفات سے ہاتھ ملانے سے منع کیا تو ۔۔ فلسطینی رہنما اور بینظیر کی مُلاقات کے دوران کیا ہوا؟
بینظیر بھٹو کی زندگی خواتین سیاستدانوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی ہر معاملے میں مضبوط قدم ہو کر کام لیا۔ سیاست اپنی جگہ کی، ڈپلومیسی اپنی جگہ کی اور گھر داری بھی اچھی نبھائی۔ قومی معاملات ہوں یا بین الاقوامی بینظیر کا رویہ ہمیشہ سے ہی دوستانہ رہا۔ کبھی کسی پر تنقید کی تو بھی محدود انداز میں کی جس پر کسی کی دل آزاری نہیں ہوئی۔ بینظیر نے اپنے کچھ اصول بنا رکھے تھے۔ وہ جب تک زندہ رہیں انہوں نے اپنے اصولوں کی پاسداری کی۔ جس کی وجہ سے عوام نے بھی ان کو پسند کیا اور ان کے لیے ووٹ کا ہاتھ بڑھایا۔
پاکستانی معاشرے میں یہ رواج عام ہے کہ کوئی بھی خاتون کسی مرد سے ہاتھ (مصافحہ) نہیں ملاتی۔ لیکن اب یہ رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ جب بینظیر وزیرِاعظم تھیں تو انہوں نے اپنے چیف آف پروٹوکول ارشد سمیع خان کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ میں کسی مرد لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتی، لہٰذا اس بات کا خیال رکھا جائے۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ بینظیر کا یہ اصول ٹوٹ گیا اور انہیں مجبوراً کسی مرد سے ہاتھ ملانا پڑا۔
بینظیر نے کس سے ہاتھ ملایا؟ بینظیر نے فلسطینی وزیرِ اعظم یاسر عرفات سے ہاتھ مجبوری میں ملایا۔ جب یاسر عرفات پاکستان (کراچی) آئے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے خود بینظیر بحیثیتِ وزیرِاعظم ایئرپورٹ گئیں۔ یاسر عرفات بینظیر سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا جس کی خواہش ان کو معلوم تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بینظیر کے چیف آف پروٹوکول ارشد سمیع خان اپنی کتاب تھری پریذیڈنٹ اینڈ این ایڈ میں بتاتے ہیں کہ: ” یہ چیف آف پروٹوکول کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاز کے اندر جائیں اور بیرون ملک سے آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہیں۔ میں یاسر عرفات کے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ بے نظیر نے مجھے بلایا اور میرے کان میں کہا کہ ”عرفات کو یاد دلانا مت بھولنا کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔” جیسے ہی عرفات سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا، ’ایکسی لینس، بے نظیر بھٹو نیچے آپ کے استقبال کے لیے کھڑی ہیں۔ میں آپ کو صرف یہ یاد دلانے آیا ہوں کہ وہ مردوں سے مصافحہ (ہاتھ ملانا) نہیں کرتیں۔ جس پر عرفات نے مجھے کہا: ’ہاں، ہاں۔۔۔ مجھے اس بارے میں کئی بار بتایا جا چکا ہے۔ تاہم یاد دلانے کا شکریہ۔‘ لیکن ۔۔ یاسر عرفات کے اترتے ہی میں نے دیکھا کہ انھوں نے بے نظیر سے مصافحہ کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بے نظیر نے مجھے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ابھی ہم لوگ چل ہی رہے تھے کہ انھوں نے مجھ سے اردو میں سرگوشی کی تاکہ عرفات نہ سمجھ سکیں، ’آپ نے انھیں نہیں بتایا کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔‘