بیٹی کو 12 کلو میٹر دور اسکول لے جاتا ہوں تا کہ وہ ان پڑھ باپ کا خواب پورا کر سکے ۔۔ پشتون والد کن مشکلات سے گزر کر بیٹی کو ڈاکٹر بنا رہا ہے؟
ایک لڑکی کا سب سے بڑا سہارا اس کا والد ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ باپ وہ ہستی ہے جو اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ بلکل اسی ہی طرح کے ایک عظیم باپ کی کہانی آپکو بتاتے ہیں۔
اس شخص کا نام ہے میا خان جو کہ پٹھان ہے، یہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتا ہے جس کیلئے وہ اپنی پھول جیسے بیٹی کو روزانہ 12 کلومیٹر گھر سے دور ایک اسکول میں لے کر جاتا ہے تا کہ وہ پڑھ لکھ جائے اور ڈاکٹر بن جائے کیونکہ ان کے گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے جب وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔
اپنی بیٹی کی کلاس ختم ہونے تک اسکول کے باہر تقریباََ 4 گھنٹے بیٹھا رہتا ہے تا کہ اپنی بچی کو اب باحفاظت اسکول سے گھر لے جاؤں۔
اب ایک اور بات یہ بھی ہے کہ جس وقت یہ اپنی بیٹی کیلئے اسکول کے باہر بیٹھ کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار بھی اسے بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ وہ خود تو ان پڑھ ہے مگر اسکی بیٹی پڑھ رہی ہے جو اس کا نام روشن ضرور کرے گی۔
مزید یہ کہ میاخان نامی یہ شخص یہی چاہتا ہے کہ ایک تو اس کی بیٹی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے اور اپنے گاؤں کے لوگوں کا علاج کرے اور دوسری بات اپنے والد کی طرح ان پڑھ نہ کہلوائے۔
اب یہاں بتاتے ہیں آپکو کہ بیٹی بھی والد کے جذبات کی نہایت قدر کرتی ہے ارو دل لگا کر پڑھ رہی ہے کیونکہ وہ یہ بات جانتی ہے کہ طرح اس کا والد اسے روزانہ 12 کلومیٹر گھر سے دور اسکول پڑھائی کیلئے لا رہا ہے۔
واضح رہے کہ عام خیال یہ پایا جا تا ہے کہ پشتون لوگ اپنی بیٹیوں کو زیادہ تر نہیں پڑھاتے مگر میا خان نے سب باتوں اور قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔