تاریخی موڑ پر
امریکہ میں اٹھارویں صدی میں ایک جنگ پیش آئی جس کو وار آف انڈپنڈنس (83-1775) کہا جاتا ہے۔اس کے بعد امریکہ میں ایسے لیڈر ابھرے جنہوں نے جنگ کے بجائے امن کی حمایت کی۔انہیں میں سے دوسرا امریکی صدر جان اڈمس ہے جس کو غیر سیاسی سیاست دان (Non-Political Politician) کہا جاتا ہے ۔1783میں پیرس معاہدہ کے تحت جب برطانیہ نے اس کو آزادی دے دی تو اس کے بعد امریکہ نے اپنا راستہ بدل دیا۔اب سارا زور تعلیم ، سائنسی ریسرچ، انڈسٹری، سٹی پلاننگ اور نئی نسل کی کردار سازی پر دیا جانے لگا۔
یہی واقعہ جاپان میں بھی پیش آیا جس کو وہ لوگ عمل معکوس (Reverse Course) کا نام دیتے ہیں۔دوسری عالمی جنگ تک جاپان عسکریت کے راستہ پر چل رہا تھا۔مگر دوسری عالمی جنگ کے تجربات کے بعد اس نے اپنا راستہ بدل دیا۔اب اس نے جنگ کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیا۔اس کے بجائے اس نے تعلیم کے میدان میں اپنی تمام توجہ موڑ دی۔سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کو اپنا نشانہ بنالیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس سال میں تاریخ بدل گئی۔
عمل معکوس کا یہ مرحلہ ہر قوم کے لئے پیش آتا ہے۔جو لوگ ایسا کریں وہ کامیاب رہتے ہیں۔اور جو لوگ ایسا نہ کرسکیں وہ ناکام ہوکر رہ جاتے ہیں۔امریکہ اور جاپان دونوں اس عمل معکوس کو اختیار کرنے کی مثال ہیں۔ دوسری طرف انڈیا ہے۔آزادی کے بعد مہاتما گاندھی نے انڈیا کو اسی راستہ پر چلانا چاہا تھا مگر انڈیا عمل معکوس کے اس رخ پر نہ چل سکا۔اسی لئے اس کو ترقی بھی حاصل نہ ہوسکی۔
موجودہ زمانہ کیے مسلمانوں کے لئے بھی اب یہی وقت آگیا ہے۔وہ لمبی مدت سے اغیار سے شاکی ہوکر ان کے ساتھ بے فائدہ آرائی کی پالیسی اختیار کئے ہوئے تھے۔اب ضرورت ہے کہ اس خارجی پالیسی کو ترک کردیا جائے اور اس کے بجائےداخلی پالیسی اختیار کی جائے۔یعنی اپنی کوتاہی کا اقرار کرتے ہوئے اپنی تعمیر میں ساری توجہ لگا دی جائے۔مسلمانوں کے مسائل کا یہی واحد حل ہے، اور اسی کو انہیں ہمہ تن اختیار کرلینا ہے۔