جب سے وہ جوان ہوئی تھی تو کالی رنگت کیوجہ رشتہ نہ ہوتا سہاگ رات کو جب دلہے نے گھونگٹ اٹھایا
اوہ کالی لڑکی بات تو سن ، اس فقرے پر اس نے مڑ کر دیکھنا بھی مناسب نہ سمجھا ، اس کے ماں باپ نے نہ جانے اس کانام کیا سوچ کر زیب النساء رکھ دیا تھا ہوش سنبھالتے ہی اس نے سب کے منہ سے اپنے لیے کالی کا نام ہی سنا تھا ۔ بچپن میں بھی جب کوئی کھیل کھیلتے تو اس کے حصے میں سب سے گھٹیا مقام ہی آتا کیوں کہ وہ کالی تھی
اس کی رنگت باقی بہن بھائیوں کے مقابلے میں اتنی کالی لڑکی کیوں تھی اس کا شکوہ اس نے ہر رات تکیے پر سر رکھ کر اللہ سے کیا تھا ۔مگر اس کا جواب اس کو کبھی نہ ملا تھا ۔ بچپن میں جب بھی اس کی ماں اس کیلئے کپڑے بناتیں اس کے حصے میں سب سے برا رنگ آتا کیوں کہ اس کی ماں کا یہ ماننا تھا کہ وہ کچھ بھی پہن لے لگنا تو اس نے براہی ہے کبھی کالی کبھی چڑیل اور کبھی اس کو کالی ماتا کے ناموں سے پکارا جاتا تھا ان ناموں میں اس کا اصل نام نہ جانے کہاں کھو گیا تھا ۔ جوانی کی حدود میں جب اس نے قدم رکھا تو اس کی یہ کالی رنگت قدرے کم ہوگئی اور آئینہ دیکھ کر اسے بھی اپنا آپ اچھا لگنے لگا ۔مگر اسکے باوجود جو بھی رشتے والی عورت آتی اس کی چھوٹی بہن کو پسند کرلیتی اور اس کو اس کی رنگت کے سب دھتکار دیا جاتا یہاں تک کہ اس کی جوانی ڈھلنا شروع ہوگئی
تعلیمی میدان میں اچھی پوزیشن کے باوجود اس کی رنگت اس کیلئے ہر محاذ پر آڑے آتی رہی اس نے تنگ آکر مختلف اشتہاری کمپنیوں کی بتائی ہوئی رنگ گورا کرنے کی کریموں کااستعمال بھی شروع کردیا تھا ۔ جس کے سبب اس کی رنگت میں کسی حد تک تبدیلی واقع ہوئی مگر وہ اب بھی اتنی نہ تھی کہ وہ رشتے کیلئے آنیوالی خواتین کو متاثر کرسکے اس کی ماں باپ کی انتھک کوششوں کے سبب بلآخر اس کا رشتہ ایک گھر میں طے ہوگیا لڑکا عمر میں کچھ زیادہ تھا مگر اس کی بہن نے اپنے بھائی کے گھر کو بسانے کیلئے ایک سلجھی ہوئی لڑکی کی تلاش میں اس کو پسند کرلیا لیکن یہ بات اس کو شادی کے بعد پتہ چلی کہ اس کی نند کی خواہش تھی کہ اس کی بھابھی اس سے دبے رہے تاکہ وہ شادی کے بعد بھی بھائی کے گھر پر اپنا دباؤ برقرار رکھ سکے ۔اس کے شوہر نے گھونگھٹ اٹھاتے ہی اس کو ناپسند کردیا
اور کہہ دیا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بچے بھی اس کی طرح کالے ہوں اس لیے وہ ایسی کالی عورت کے وہ حقوق کبھی پورے نہیں کرے گا جو اس کا حق ہے اور جس سے وہ ماں بن سکے اور اس کے بعد اس کے شوہر نے ایک سفید اور خوبصورت لڑکی سے شادی کرلی اس کی حیثیت اس گھر میں ایک خادمہ سے زیادہ نہ تھی وہ اپنے شوہر کے کمرے سے ان سرگوشیوں کو سنتی جس کیلئے اس کے کان ترستے تھے ۔اس کے شوہر کی دوسری بیوی جوکہ خوبصورت اور کم عمر تھی اس کو اب اپنے شوہر کی عمر زیادہ اور آمدنی کم لگنے لگی تھی جس کے سبب گھر میں ہر وقت ایک تناؤ کی کیفیت رہنے لگی جس کے نتیجے میں ایک دن وہ عورت اس کے شوہر کو چھو ڑ کر چلی گئی ۔اب اس کا شوہر ایک بار پھر اس کے پاس آنا چاہتا ہے اور اس کے کالے چہرے اور کالے نصیبوں کو رنگین کرنا چاہتا ہے مگر اس میں اب اس بات کا حوصلہ نہیں ہے کہ ساری عمر جس کالے رنگ کا طعنہ اس نے سنا اس کے بچے بھی یہ سنیں۔اس لیے اس نے اپنے شوہر کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک کر سنبھال باندھنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ دوبارہ اس جیسی کوئی لڑکی کو دوبارہ اس امتحان سے گزرنا نہ پڑے ۔