جنت میں داخلہ

یہ حضرت آدم ؑ کی دوسری بزرگی بیان ہوتی  ہے، فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد بی بی حّوا کو پیدا فرمایا پھر رہائشی کے واسطے جنت میں رہنے کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد ہے:۔

ترجمہ:۔

“اور کہا ہم نے اے آدم ؑ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو بافراغت کھاو اور اس ایک درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم ظالموں سے ہوجاو گے”

(سورۃ بقرہ رکوع4)

ترجمہ:۔

پروردگارِ عالم جل جلالہ نے اپنے فضل و کرم سے ارشاد فرمایا اے آدم ؑ اطمینان سے سب کچھ کھاو پیو، تو اور تیری بیوی جنت میں بڑے آرام اور اطمینان سے رہو صرف ایک درخت کے قریب بھی نہ جاو، یئہ بھی ایک امتحان تھا۔

توریت میں ہے کہ شیطان سانپ کے مُنہ میں بیٹھ کر اندر چلا گیا تھا۔

تفسیر حقانی میں ہے کہ رُوپ بدل کر چلا گیا تھا، ناصح اور مشفق بن کر آدمؑ کے دل میں خطرہ ڈالا، کہنے لگا اے آدمؑ اس وقت تم پر بڑی مہربانی ہوئی ہے لیکن تمھاری حیات اور بادشاہانہ طور پر سدا رہنے کا کوئی انتظام نہیں اس تمہید کے بعد کہا لو میں تمہیں اس باغ میں ایسا درخت بتاتا ہوں کہ جس کے کھانے سے ہمیشہ جیتے رہو گے اور بے زوال سلطنت ملے گی اس درخت کا نام (شجرۃ الخلد) ہے، اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ وہ درخت گند کا تھا ۔(تفسیر حقانی)۔

اور تفسیر عزیزی میں ہے کہ شیطان حضرت آدمؑ اور بی بی حوّا کے روبرو گیا، پھر کہا تم جانتے ہوکہ تمھارا کیا انجام ہوگا، اس تعظیم اور تکریم پر فریفتہ مت ہوجاو، آخر تمھارے واسطے موت ہے، حضرت آدمؑ نے فرمایا موت کیا چیز ہے؟ پھر شیطان نے اپنے آپ کو مرنے والےجانور کی شکل  بنا کر آدمؑ اور بی بی حّوا کے سامنے لیٹا جس طرح کہ مرنے والے کی روح نکلتی ہے، ویسی حالت بنا کر غرغر کرنے لگا اور ہاتھ پاوں مارنے لگا اس حالت میں جیسا کہ روح نکلتی ہے، اس حالت کو دیکھ کر آدمؑ  اور حّوا کے دل میں خوف پیدا ہوگیا، پھر شیطان نے کہا اس حالت سے محفوظ رہنے کے واسطے یہی ایک بات ہے کہ اس درخت کا میوہ کھاو، پھر تم پر موت نہ آئے گی، شیطان کا بیان یہ ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:۔

ترجمہ:۔

“کیا نہ بتاوں میں تم کو ایک درخت کہ اس کا میوہ کھانے سے تم دائمی زندہ رہو گے اور لازوال سلطنت ملے گی تم کو خدا نے اسی لئے اس درخت سے منع کیا ہے”

شیطان ان کی خوشی و آرام دیکھ کر حسد میں آیا، مکاری اور فریب سے کام لینا شرو ع کیا، تاکہ جو نعمت اور لباس حسن و جمال ان کو حاصل ہے اس سے محروم رہ جائیں، پھر شیطان نے حضرت آدمؑ اور بی بی حّوا سے کہا کہ تمھارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لئے منع کیا ہے کہ اگر تم اس کو میوہ کھاو تو تم دونوں فرشتے بن جاو گے یا تم دائمی جنت کے رہنے والے ہو جاو گے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:۔

ترجمہ:۔

“مگر روکنے کی وجہ یہ ہے کہ یا تم دونوں فرشتے بن جاو گے یا ہمیشہ جنت کے رہنے والے بن جاو گے جو دائمی سلطنت ہے”

آدمؑ نے پھر بھی درخت کا میوہ کھانے سے انکار کردیا، پھرشیطان نے قسم کھائی کہ  میں تمھارا خیر خواہ ہوں، جیسا کہ فرمان ہے:۔

ترجمہ:۔

“اور قسم کھائی ان دونوں کے رُوبرو کہ بے شک میں تمھارا خیر خواہ ہوں، پس فریب سے ان کو نکال لیا”

اپنا تبصرہ بھیجیں