حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص تم سے امید رکھتا ہے۔ اسے مایوس اور ناامید نہ کرو۔ جس میں عقل نہ ہو اس کی کسی بات پر امید نہیں رکھنی چاہیے۔ جسے اپنی م و ت کا خیال ہوتا ہے۔ وہ اپنی امیدیں چھوٹی رکھتے ہیں۔ جب کسی کو کچھ عطا کرنے کا ارادہ کرو، تو اس میں دیر نہ کرو۔ خدا کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی نہ کرو کیونکہ لوگوں کے بدلے دوسرے لوگ مل سکتےہیں۔
مگر خدا کے بدلے کوئی دوسرا خدا نہیں مل سکتا۔ جب وہ کام پورے نہ ہوں۔ جن کو تم چاہتے ہو تو ایسے کاموں کا ارادہ کر و جوتم باآسانی کرسکتے ہو۔ عقل انسان کی فضیلت اور سچائی زبان کی امانت ہے۔ مزدوری محنت کرنےسے ملتی ہے۔ جبکہ غرور کا انجام ہلاکت ہے۔ جوشخص انجام کی فکر میں مبتلا رہتا ہے ۔ وہ صبر کرتا ہے۔ عقل کی آفت خواہش نفس اور نفس کی آفت حب دنیا ہے۔ جو شخص اپنے دین کو بگاڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی آخرت برباد کردیتاہے۔ ۔ ایسے ہی ایک محفل برپا تھی
حضرت علی رضی اللہ عنہ علم وحکمت کےموتی بکھیر رہے تھے کہ ایک شخص وہاں پر حاضر ہوا۔ اور دست ادب کو جوڑ کر گویا ہو ا کہ اے علی ! ایک سوال میرے قلب وذہن کو پریشان کیے رکھے ہے ۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم تمام لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو پھر م رنے کے بعد ہمارے جسموں کے ساتھ ایسا انجام کیوں ہوتا ہے ؟ کہ اس میں کیڑے پڑجاتےہیں۔
ہم جن چہروں سے پوری زندگی محبت رکھتےہیں۔ اور ان محبوب چہروں کو مرنے کےبعد کیڑے کیوں کھاجاتےہیں؟ اس لیے دکھ نےمجھے مخدوم کیے رکھا ہے اس بظاہر سادہ سوال کا حضرت علی رضی اللہ عنہ نےکس خوبصورتی سے کیا جواب دیا؟ تواس دربار میں موجود تمام اصحاب ہمہ تن گوش ہوگئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس بظاہر سادہ سوال کا کیا جواب دیتےہیں؟ امام علی مسکرائے اورفرمایاکہ : اے شخص ! شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نےم وت کے بعد انسان کے جسم میں کیڑے پید ا کردیے۔
آپ کا یہ حیر ت میں مبتلا کردینے والا جواب سنا۔ تو وہ شخص حیران ہو کر بولا اے علی ! اس میں شکر کامقام کیا ہے۔ کہ ہمارے جسمو ں میں م رنے کے بعد کیڑے پڑجاتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : کہ اے شخص ! اگر مرنے کےبعد انسان کےجسم میں کیڑے نہ پڑتے یہ ہوتا کہ لوگ اپنے عزیز واقارب ، اپنے محبوبوں کو م رنے کے بعد دفناتے مت بلکہ ان کی لاش وں کو اپنے گھروں میں سجا لیتے۔ اور یوں با لآخر فتنےمیں پڑجاتے۔ اورجیسےجیسے وقت گزرتا جاتا
۔ ان لاش وں کی بے حرمتی ہوتی رہتی ۔ اورآنے والے وقتوں میں ، آنے والی نسلیں ضرورت پڑنے پر ان لاش وں کی جسمانی اعض اء کو بیچ کھانےسے بھی گریز نہ کرتے ۔ ہمارے خالق اور ہمارے اللہ کی غیر ت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ م رنے کے بعد اس کی تخلیق کی لاش کی یوں بے حرمتی ہوں۔ چنانچہ مرنے کے بعد ہمارےجسموں میں کیڑے پڑجاتےہیں۔ اور ہمیں زمین میں دفن ا دیا جاتا ہے۔ اور یوں ہم رفتہ رفتہ اپنی اصل سے گھل مل جاتے ہیں۔ اور ہمارا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا۔