حقیقی تبدیلی لانے والے 10 لوگ۔۔۔
میں ایک کلرک ہوں۔ میری تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ میں ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے محلے کے قصاب سے چھ سو روپے کا آدھا کلو چھوٹا گوشت لے کر اپنے کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھیج دیتا ہوں۔ یہ گوشت ہماری طرف سے صدقہ ہو جاتا ہے۔
میرا ایک چھوٹا سا کریانہ سٹور ہے۔ میں روزانہ پچاس روپے کاروبار سے نکال کر گولک میں ڈال دیتا ہوں۔ میں ہر ماہ پندرہ سو روپے اپنے محلے کی ڈسپینسری میں دے آتا ہوں۔ وہاں معائنہ فیس پچاس روپے کے عوض مریضوں کو ادویات دی جاتی ہے۔ میری طرف سے ایک مہینے میں تیس مریضوں کا علاج ہو جاتا ہے۔
میں اپنے کاروبار سے روزانہ سو روپے الگ کر کے اپنی بیوی کے پاس جمع کرواتا ہوں۔ مہینے کے بعد ہم تین ہزار روپے کا راشن بیگ ایک غریب گھرانے کو بھجوا دیتے ہیں۔
میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوں۔ سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ ہوں۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ میں سے پانچ ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ ہم ہر سال ماہ رمضان میں اپنے شہر کے یتیم خانے میں قیام پذیر بچوں کو عید کے نئے کپڑے لے کر دیتے ہیں۔ ہمارے بجٹ سے ساٹھ پینسٹھ بچوں کے لیے تین دن کے دیدہ زیب کپڑوں کا انتظام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
میری کپڑے کی دکان ہے۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی آمدنی میں سے دس ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ یہ سال کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ میں ہر سال ایک یتیم بچی کی شادی و رخصتی کا بند و بست کرتا ہوں۔
میں ڈاکٹر ہوں۔ میرا معمول ہے کہ میں اپنی آمدنی میں سے کینسنر سوسائیٹی کے ذریعے روزانہ ایک غریب مریض کے لیے کیمو تھراپی کا انجیکشن ڈونیٹ کرتا ہوں۔
ہم دونوں میاں بیوی سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ ہم ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول حصہ الگ کرتے ہیں۔ اور ہر ماہ کے پہلے سنڈے کو اپنے محلے کے دینی مدرسے میں پڑھنے والے ہاسٹلائز بچوں کو مدرسے میں جا کر کھانا پیش کرتے ہیں۔
میری پوش علاقے میں ایک بیکری ہے۔ میں نے اپنے علاقے کے دونوں گرلز اینڈ بوائز سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو کہہ رکھا ہے کہ یتیم طلبا و طالبات کی یونیفارم اور جوتے میرے ذمہ ہیں۔ یہ کام کئی سال سے جاری ہے۔ الحمد للہ اس مقصد کے لیے دو سو روپے روزانہ الگ کر دیتا ہوں۔
میرا ریسٹورینٹ ہے۔ میں روزانہ پچاس لوگوں کو اپنے ریسٹورینٹ سے رات کا معیاری کھانا پارسل صورت میں دیتا ہوں۔ تاکہ وہ غریب لوگ گھر جا کر اپنی فیملی کے ساتھ سیر ہو کر کھائیں۔
میں انجنیئر ہوں۔ میں ایک نجی کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ میری بیوی بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ ہم دونوں اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ باقاعدگی سے ایک مخصوص رقم الگ کرتے ہیں۔ ہم معذور افراد کے لیے قائم ایک ادارے کو ہر ماہ ایک وہیل چیئر عطیہ کرتے ہیں جو کسی مستحق معذور کو دے دی جاتی ہے۔
آئیں آج سے ہم بھی عزم کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے دیے ہوئے رزق سے مستحق لوگوں کا حصہ نکالیں گے …