خود اعتمادی
1975 میں ساوتھ کو ریانے اسٹیل فیکٹری کا ایک منصوبہ بنایا۔اس کے لئے انہیں ورلڈ بینک کے قرض کی ضرورت تھی۔انہوں نے اس کی درخواست بھیجی۔ اس کے بعد حسب قاعدہ بینک کے ماہرین کی ایک پارٹی کو ریاگئی تاکہ وہ برسرِ موقع حالات کا مطالعہ کرے، اس پارٹی نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ رپورٹ دی کہ کوریا کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ منصوبہ قابلِ عمل (Feasible) نہیں ہے، چنانچہ ورلڈ بینک نے کوریا کو اس مقصد کے لئے قرض دینے سے انکار کردیا، مگر ساوتھ کوریا کے لوگوں نے ہمت نہیں ہاری، انہوں نے دوسرے ذرائع تلاش کئے اور کسی نہ کسی طرح اپنی فیکٹری قائم کردی ۔20 سال بعد کوریا کی یہ فیکٹری دنیا کی دوسری سب سے بڑی اسٹیل فیکٹری بن چکی تھی۔ورلڈ بینک کا ایک ایکسپرٹ دوبارہ کو ریا آیا تاکہ وہ قائم شدہ فیکٹری کو دیکھے۔اس نے قریب سے فیکٹری کا معائنہ کرنے کے بعد دوبارہ لکھا کہ 20 سال پہلے ہم نے جو بات کہی وہ بجائے خود صحیح تھی۔مگر ہم اپنے جائزہ میں ایک چیز کو شامل نہ سکے تھے، وہ یہ کہ کوریا کے لوگ خود اعتمادی (self-Confidence) کا لامحدود دخیرہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔
خود اعتمادی خدا کی دی ہوئی ایک صفت ہے ، وہ ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے، البتہ کچھ لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں، اور کچھ لوگ بینک کے انارک کے بعد اگر یہ کہنا شروع کرتے کہ بینک والے متعصب ہیں۔ وہ ہماری ترقی نہیں چاہتے، وہ ہم کو اقتصادی پس ماندگی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کی خود اعتمادی کی صفت دب کررہ جاتی۔ ان کا ذہن عمل کے رخ پر چلنے کے بجائے شکایت اور احتجاج کے رخ پر چلا پڑتا۔اور جب وہ ایس اکرتے تو ان کے اندر خود اعتمادی والے جذبات ابھرنے سے رہ جاتے، یہ خدا داد صفت ان کے اندر چھپی ہوئی موجود رہتی مگر وہ اس کے عملی استعمال سے محروم رہتے ۔کوریا کی فضا شکایتی الفاظ سے بھرجاتی مگر وہاں کوئی اسٹیل فیکٹری کام کرتی ہوئی نظر نہ آتی۔
خدا نے انسان کو ہر قسم کی اعلیٰ صلاحتیں وافر مقدار میں عطائ کی ہیں۔ مگر ان کو استعمال کرنا صرف انہیں بلند حوصلہ لوگوں کے لئے مقدر ہے جو مثبت طرز فکر کے حامل ہوں، جو منفی طرز فکر سے آخری حدتک پاک ہوں۔
Chairperson of international seminars has two difficulties:
(1) To persuade the shy Japanese to speak.
(2) To persuade the Indian delegate to complete his speech.
ایک انسان وہ ہے جس کےمزاج میں سنجیدگی ہو۔ جس سیکھنا چاہتا ہو اور جس کے اندر کام کرنے کا شوق ہو۔اس کا حال وہی ہوگا جو مذکورہ قول میں جاپانی کا حال بتایا گیا ہے، ایسا انسان بولنے سے زیادہ سننا چاہے گا۔ کیونکہ سننا اس کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔اس کا دھیان اپنی عملی ذمہ داریوں پر ہوگا۔اور جس آدمی کا ذہن اپنی عملی ذمہ داریوں پر لگا ہوا ہو، اس کا بولنا کم ہوجاتا ہے، عمل کا مزاج اپنے آپ قول کو گھٹا دیتا ہے۔
دوسرا نسان وہ ہے جو سنجیدگی سے خالی ہو۔جس کے اندر یہ شوق نہ ہو کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرے، جو محنت سے دور بھاگتا ہو۔ایسے آدمی کا حال وہ ہوتا ہے جو مذکورہ قول میں بتایا گیا ہے ایسا انسان انسان سب سے زیادہ بولنے میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہی نہیں کہ کچھ اور باتیں ہیں جن کو اسے جاننا چاہئے۔وہ بے تکان بولے گا۔کیونکہ اس کا احسانس ہوگا کہ زیادہ بول کر وہ اپنے کم کام کی تلافی کرسکتا ہے۔
زیادہ بولنا اور کم کرنا غیر سنجیدہ انسان کی علامت ہے، اور کم بولنا اور زیادہ کرنا سنجیدہ انسان کی علامت ہے۔