دیکھو قمر مجھ سے نو کرانی نہیں بن کر نہیں رہا جا تا رات کو شو ہر بیوی کے پاس آ تا تو


دیکھو قمر مجھ سے نو کرانی بن کر نہیں رہا جا تا سمجھے۔ میں نے نہ تو تمہاری ماں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے نا ہی تمہارے بھائی کے بچوں کا نہ تو میں اتنا کھا نا بنا سکتی ہوں اور نہ ہی بر تن دھو سکتی ہوں سجل غصے سے چلا رہی تھی قمر پاس بیٹھا ہاتھ تھا ما میری جان تھک جاتی ہو نا اچھا چلو میں کروں گا

با ت امی سے تم نہ کیا کر نا کام سجل خاموش ہو گئی رات کو قمر امی کے پاس بیٹھا ہوا تھا امی جان آپ سے ایک بات کر نی ہے ماں نے ہاں میں سر ہلا یا ہاں میرے بچے بو لو۔ امی دراصل بات یہ ہے کہ پھر وہ چپ ہو گیا امی نے پھر پو چھا ہاں میرے بچے بو لو کیا بات ہے اصل میں سجل آ ج مجھے کہہ رہی تھی وہ تھک جا تی ہے اس سے اتنے گھر کے کام نہیں ہو تے۔

تو امی آپ سجل سے نہ کہا کر یں وہ گھر کے کام کر ے ماں مسکرانے لگی ہائے یہ بیوی تو یہ بات ہے اس لیے آج سارا دن وہ سوئی رہی چلو ٹھیک ہے پتر۔ نہیں کہتی لیکن پھر گزارا کیسے ہو گا کل کو تو تمہارے بھی بچے ہوں گے کئی ذمہ داریاں ہوں گی تھکن بھری زندگی کا سفر تو ا بھی باقی ہے بیٹا رشتوں سے انسان کبھی نہیں تھکتا ہمارے ذہنوں میں پھیلے فتور ہم کو تھکا دیتے ہیں

بیٹا میں کسی کو پا بند نہیں کر تی ایک وقت تھا جب میں بیاہ کر آئی تھی مٹی کا مکان تھا دس بھینسیں رکھی ہوئی تھیں میں اٹھاراں سال کی تھی بہت لاڈلی تھی امی ابو کی لیکن یہاں آکر تیرے ابا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی رہی بیٹا گھر یوں ہی بسائے نہیں جا تے خیر تمہاری بیوی کی مرضی ہے میں کوئی زبردستی کروں گی تو بہت مشکلیں آ ئیں گی ایسا کر تیرے بھائی بھی آ جا تے ہیں میں بٹوارا کر دیتی ہیں ۔

تم اپنی بیوی کو لے کر الگ ہو جا ؤ اتنے میں سجل بھی آ گئی قمر چلیں ماں نے پیار سے پو چھا کہاں جا رہے ہو پتر قمر آ ہستہ سے بو لا امی آج صبح سے سجل نے کچھ نہیں کھا یا تو میں سوچ رہا تھا آ ج ڈنر با ہر کر لیں امی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اچھا جاؤ پتر۔ دونوں ایک ریسٹورینٹ میں پہنچے۔ کھا نا آرڈر کیا سجل کھا نا کھاتے ہو ئے پو چھنے لگی امی سے بات کی ہے یا نہیں قمر مسکرا کر اطمینان سے بو لا ہاں میری جان بتا یا ہے

امی کہہ رہی تھیں تم لوگ الگ ہو جا ؤ سجل کے چہرے پہ ایک مسکرا ہٹ چھانے لگی ٹھیک کہا امی نے ہم جس کمر ے میں رہ رہے ہیں وہی رہیں گے کھا نا کھا یا گھر گئے بارہ بج چکے تھے سب سو گئے تھے ماں جاگ رہی تھی اپنے کمرے میں جا نے لگے تو قمر کو ماں نے آواز دی قمر پاس جا کر سلام کیا امی آپ سوئی نہیں ابھی تک امی نے پریشانی میں کہا بیٹا میرے پاس بیٹھ اپنی بیوی کو بلا سجل بھی پاس بیٹھ گئی ماں سمجھانے لگی قمر تمہارے بھائی کہہ رہے ہیں سجل گھر کا کام نہیں کر تی۔

مشکل سے اٹھی ٹانگ پہ چوٹ لگی یہوئی تھی شوہر نے ما را تھا آنکھوں میں آنسو دل میں تڑپ بے بسی سے اٹھ کر چلی گئی آہ بھرنے کی بھی مجھ میں ہمت نہ تھی عمر بھر ان کوآنسو مناتے رہے ان کی نظروں میں اشکوں کی قیمت نہ تھی قمر اپنی بیوی کا ہاتھ تھا مے چلا گیا ضروری نہیں ہو تا مرد ظالم ہو عورت بھی بد بخت ہو سکتی ہے

سجل کی طرح تما شے کر نے والی جھگڑے اور رشتوں میں ز ہ ر بھرنے والی میکے کی فکر اور سسرال کو قید خانہ سمجھنے والی گھر کو ج ہ ن م بنانے والی اور پھر انجام سجل سا ہو تا ہے اگر کوئی عورت اس جیسی ہے تو انجام سے پہلے سدھر جا ئے ورنہ زندگی جب تھپڑ مارے گھر پھر پچھتاوے کیا موقع بھی نہ ملے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں