ذاتی ذمہ داری

دوسری عالمی جنگ(45-1939) کے دورانھ سرونسٹس چرچل برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔وہ عام طور پر تشدد و پسند لیڈر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ایک بوڑھے برطانوی شہری نے مجھے بتایا کہ چرچل نے اس جنگ کے زمانہ میں برطانوی قوم کو جو ماٹو دیا تھا وہ یہ تھا “سب کچھ میرے اپنے اوپر منحصر ہے”

It all depends on me

یہ ایک بہترین ماٹو ہے۔یہ جنگ اور امن دونوں حالتوں میں یکساں طور پر مفید  ہے، میرے بھائی عبدالمحیط خاں (انجینئر) نے بتایا کہ ایک بار وہ چندی گڑھ کے ایک ٹریننگ کیمپ میں شریک ہوئے۔یہ کیمپ  پالی ٹکنیک کے پرنسپلوں کے لئے قائم کیا گیا تھا۔اور اس میں لیکچر دینے کے لئے ایک انگریز پروفیسر کو بلایا گیا تھا۔اس کا افتتاح ایک ہندستانی منسٹر کو کرنا تھا۔منسٹر جب مائک لئے کھڑے ہوئے تو اچانک بجلی چلی گئی اور لاوڈ سپیکر نے کام کرنا بند کردیا۔وہاں متبادل انتظام کے طور پر بیٹری نہ تھی۔ البتہ کالج کے ورکشاپ میں بیٹری موجود تھی۔

اس وقت زیر تربیت پرنسپل صاحبان کالج کے کسی چپراسی یاورکر کو تلاش کرنے لگے تاکہ اس کو ورکشاپ بھیج کر وہاں سے بیٹری منگوائیں اور اس سے لاوڈ سپیکر کو چلائیں مگر انگریز پروفیسر کو جیسے ہی صورتحال کا علم ہوا وہ خود بھاگ کر ورکشاپ میں پہنچا اور بھاری بیٹری کو دونوں ہاتھوں سے اٹھاکر دوڑتا ہوا آیا اور لاوڈ سپیکر کے نظام سے جوڑ کر اس کو چلایا۔

کسی قوم کے افراد میں یہی مزاج اس قوم کی اجتماعی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔افراد کے اندر یہ اسپرٹ جتنا زیادہ  پائی جائے گی، اتنا ہی زیادہ وہ قوم ترقی کرسکے گی۔

عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب وہ سماج میں کوئی خرابی دیکھتے ہیں تو ایک قانون بنانے کی تجویز پیش کرتے ہیں یا نظام میں تبدیلی لاکر اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، مگر قانون اور نظام کی ایک حد ہے، اپنی حد پر پہنچ کر قانون اور نظام غیر مئوثر ہوجاتے ہیں۔اصلاح کا اصل طریقہ یہ ہے کہ افراد کے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا کردیا جائے۔

موجودہ زمانہ میں اسی کو اسپرٹ آف انکوائری کہا جاتا ہے۔سائنسہ نقطئہ نظر سے اس کی بے حداہمیت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ زیادہ بڑے عالم بنتے ہیں جن کے اندر یہ متجسانہ اسپرٹ موجود ہو۔ اس قسم کی اسپرٹ ہر ایک کے لئے انتہائی ضروری ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا کوئی اونچی سطح کا آدمی۔

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سننے سے زیادہ سنانے کے شوقین ہوتے ہیں۔مگر اس قسم کا مزاج علم کی ترقی میں ایک مستقل روکاوٹ ہے ایسے لوگ کبھی زیادہ بڑی علمی ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔جب آپ بولتے ہیں تو اُس وہیں رہتے ہیں جہاکہ آپ ہیں۔مگر جب آپ سنتے ہیں تو آپ اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔صحیح علمی مزاج یہ ہے کہ آدمی بولنے سے زیادہ سنے، وہ جب بھی کسی سے ملے تو سوالات کرکے اس سے معلومات لینے کی کوشش کرے۔

معلومات کا خزانہ، ہر طرف اور ہر جگہ موجود ہے۔مگر وہ صرف اس شخص کے حصہ میں آتا ہے جو اس کو لینے کے  آداب کو جانتا ہو۔

۔

اس سنت سے معلوم ہوا کہ دوسروں سے تعاون لینے میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق کرنا درست نہیں۔اس طرح کے تعاون کے معاملے میں اہیلت دیکھی جائے گی نہ کہ رشتہ اور مذہب۔

رسول اللہ ﷺ نے یہی پالیسی ہمیشہ اختیار کی۔مثال کے طور پر بدر کی لڑائی کے بعد سترکی تعداد میں غیرمسلم گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔یہ لوگ اس زمانہ کے لحاظ سے پڑھے لکھے تھے۔چنانچہ آپ نے اعلان کیا کہ ان سے جو شخص مدینہ کےدس بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے  اس کو ہم رہا کردیں گے۔اس طرح گویا اسلام کی تاریخ میں خودرسول اللہ  کے حکم سےجو پہلا اسکول کھولا گیا اس کے تمام کے تمام ٹیچرز غیر مسلم تھے۔

زندگی کےمعاملات میں اس اصول کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔کسی کام میں ساتھی اور کارکن کا انتخاب کرتے ہوئے اگر یہ دیکھاجائے کہ وہ اپنے مذہب کا ہے یا غیر مذہب کا یا اپنی برادری کا ہے یا غیر برادری کا، تو اس سے کام کا معیار ختم ہوجائےگا۔اس طرح کبھی کوئی کام اعلیٰ معیار پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔

صحیح طریقہیہ ہے کہ کام کو کام کے طورر دیکھا جائے۔یہ دیکھا  جائے کہ جو کام کرنا ہے اور اس کام کے لئے زیادہ بہتر اور زیادہ کارآمد لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میں میرٹ کی بنیاد پر زیادہ کارآمد کون لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میرٹ کی بنیاد پرافراد کا انتخاب کیا جائے نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔

میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کرنے سے اصل کام کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور جب کسی اورچیز کو انتخاب بنایا جائے تو اسی چیز کو فروغ حاصل ہوگا جس کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں