رمضان میں کنڈوم استعمال کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کے ساتھ جماع کرنے والے کا حکم

سوال

رمضان میں کنڈوم استعمال کرتے ہوئے جماع کرنے والے کا کیا حکم ہے؟  نیز اگر اس کی بیوی بھی اس پر راضی ہو جائے کہ خاوند نے کسی سے یہ فتوی سنا تھا کہ کنڈوم استعمال کرنے سے شرمگاہ ایک دوسرے سے نہیں ملتیں اس لیے جماع کا حکم نہیں لگے گا؟!

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

روزے دار کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں دن کے وقت جماع کرنا حرام ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ 
ترجمہ: روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے۔ لہذا اللہ نے تم پر مہربانی کی اور تمہارا قصور معاف کر دیا۔ سو اب تم ان سے مباشرت کر سکتے ہو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے اسے طلب کرو۔ اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری ، کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہو جائے تم کھا پی سکتے ہو۔ پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو۔[البقرۃ: 187]

اسی طرح حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وہ  [یعنی روزے دار]  اپنا کھانا ،پینا اور شہوت صرف میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور ہر نیکی کا بدلہ دس گنا زیادہ دیا جاتا ہے۔) اس حدیث کو بخاری: (1894) نے روایت کیا ہے۔

چنانچہ کنڈوم استعمال کرتے ہوئے جماع کرنے والا شخص یقینی طور پر اپنی شہوت پوری کرتا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

اس لیے کنڈوم استعمال کرتے ہوئے جماع کرنے پر تمام کے تمام احکامات لاگو ہوں گے کہ غسل واجب ہو گا، روزہ باطل ہو جائے گا، اور اگر حج میں تحلل اول سے پہلے جماع کرے تو حج باطل ہو جائے گا، اسی طرح کنڈوم کے ساتھ حیض کے دوران بھی جماع کرنا حرام ہے، نیز اس طرح جماع کرنے پر رجعی طلاق کی صورت میں رجوع بھی ہو جائے گا۔ اسی طرح دیگر تمام احکام بھی لاگو ہوں گے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب “الروضہ” (1/ 82) میں کہتے ہیں:
“اگر روزے دار اپنے آلہ تناسل پر کوئی کپڑا باندھ کر شرمگاہ میں داخل کر دیتا ہے تو صحیح ترین موقف کے مطابق غسل واجب ہو جائے گا، تاہم کپڑے کی آل تناسل پر دہری اور  تہری تہہ ہو تو غسل واجب نہیں ہو گا، بشرطیکہ کہ کپڑا موٹا ہو، یعنی اتنا موٹا ہو کہ اندام نہانی کی رطوبت آل تناسل تک نہ پہنچے، اور ایک دوسرے کی حرارت کو دوسرے کی شرمگاہ تک نہ پہنچنے دے۔ لہذا حرارت اور رطوبت نہ پہنچے تو غسل واجب نہیں ہو گا، بصورت دیگر غسل واجب ہو جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ صاحب کتاب: “البحر” کے مطابق یہ حکم حج کے فاسد ہونے میں بھی مؤثر ہو گا، بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس صورت میں تمام تر احکام وہی ہونے چاہییں جو بغیر کپڑے کے ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم” ختم شد

اسی طرح : “تحفة المحتاج “(3/ 397) میں ہے کہ:
“جماع سے رکنا بالاجماع ضروری ہے؛ اگر کیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، چاہے انزال نہ بھی ہو۔”

“تحفة المحتاج ” پر شروانی کے حاشیہ میں اس کی وضاحت ہے کہ: “روزہ ٹوٹ جائے گا، چاہے درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہو۔ یہی مفہوم واضح ہے۔” ختم شد

اسی طرح “كشاف القناع” (1/ 201) میں حائضہ عورت سے جماع کی حرمت کے بارے میں ہے کہ: “چاہے حائضہ عورت سے جماع آلہ تناسل پر کپڑا لپیٹ کر کیا جائے، یا کسی لفافے میں آل تناسل ڈال کر پھر اندام نہانی میں داخل کیا جائے” ختم شد

سوال میں مذکور فتوی غلط فتوی ہے، اس فتوے کی بنا پر روزے کا اصل مقصد سرے سے ختم ہو جائے گا۔ اگر کوئی عقل مند انسان اس پر غور و فکر کرے تو اس فتوے کی قباحت اور رذالت عیاں ہو جائے گی؛ کیونکہ اگر کوئی شخص کھانے پینے سے رکا رہے اور پھر سارا دن کنڈوم چڑھا کر اپنی بیوی سے جماع کرتا رہے تو یہ کون سا روزہ ہے؟!

بلکہ ممکن ہے کہ ایسی باتیں کہنے والا شخص: یہ بھی کہہ دے کہ منی خارج ہونے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، یعنی منی بھی خارج ہو جائے اور جماع بھی، پھر بھی کہے: میرا تو روزہ ہے!!

یہ تو ساری شریعت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

اگر کوئی اسی فتوے پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی اجنبی لڑکی سے جماع کرے اور دعوی کرے کہ اس نے زنا نہیں کیا؛ کیونکہ زنا ہوا ہی نہیں! تو یہ مفتی صاحب کیا کہیں گے؟!

اس لیے یہ موقف قابل التفات ہی نہیں ہے کہ اگر جماع کے دوران شرمگاہوں میں کوئی حائل ہو گا تو اس سے جماع ہی نہیں ہو گا۔ چاہے یہ بات کرنے والا کوئی فقیہ ہی کیوں نہ ہو! خصوصاً اس صورت میں کہ آج کل پائے جانے والے کنڈوم بالکل باریک ہوتے ہیں جن سے لذت ختم نہیں ہوتی؛ کیونکہ فقہائے کرام نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے اس میں کپڑے کا ذکر ہے لہذا موجودہ کنڈوم اور فقہا کی باتوں میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔

دوم:

فتوی صرف اہل مفتیان کرام سے لیا جاتا ہے۔

لہذا اگر کوئی اس کام میں ملوث ہوا ہے تو پھر اس پر درج ذیل امور لازم ہیں:
1- حرام کام کا ارتکاب کرنے پر اللہ تعالی سے توبہ کرے۔

2- جماع کے ذریعے جس روزے کو فاسد کیا ہے اس کی قضا دے۔

3- کفارہ دے، اس کے لیے گردن آزاد کرے، اگر گردن نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔

چاہے اسے انزال ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا۔

جیسے کہ “الموسوعة الفقهية” (35/ 55) میں ہے کہ: “فقہائے کرام کے ہاں عمداً، بغیر عذر کے رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے والے پر اجماعی طور پر کفارہ ہے، چاہے اسے انزال ہو یا نہ ہو” ختم شد

واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں