سیکھنے کا مزاج

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے(کان یتعلم من کلم احد) اس معاملہ کی ایک مثال روایات میں اس طرح آئی ہے کہ ایک بار انہوں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے امیرالمومنین کیا آپ کبھی ایسے راستہ سے گزرے  ہیں جس کے دونوں  طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کہ ہاں۔انہوں نے پوچھا کہ پھر ایسے موقع پر آپ نے کیا کیا۔حضرٹ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے دامن سمیٹ لئے اور بچتا ہوا نکل گیا۔انہوں نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے۔(ذلک التقویٰ)

حضرت عمر کا یہی طریقہ عام معاملات میں بھی تھا۔وہ اونٹ والوں سے اونٹ کی بات پوچھتے تھے اور بکری والوں سے بکری کی بات۔اسی طرح ان کو جو شخص بھی ملتا اس سے اسی کے میدان کی بات دریافت کرتے۔اس طرح وہ ہر ایک سے اس کے معلومات کے دائرہ مین سوالات کرتے اور اسی سے نئی نئی باتیں دریافت کرتے۔

موجودہ زمانہ میں اسی کو اسپرٹ آف انکوائری کہا جاتا ہے۔سائنسہ نقطئہ نظر سے اس کی بے حداہمیت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ زیادہ بڑے عالم بنتے ہیں جن کے اندر یہ متجسانہ اسپرٹ موجود ہو۔ اس قسم کی اسپرٹ ہر ایک کے لئے انتہائی ضروری ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا کوئی اونچی سطح کا آدمی۔

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سننے سے زیادہ سنانے کے شوقین ہوتے ہیں۔مگر اس قسم کا مزاج علم کی ترقی میں ایک مستقل روکاوٹ ہے ایسے لوگ کبھی زیادہ بڑی علمی ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔جب آپ بولتے ہیں تو اُس وہیں رہتے ہیں جہاکہ آپ ہیں۔مگر جب آپ سنتے ہیں تو آپ اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔صحیح علمی مزاج یہ ہے کہ آدمی بولنے سے زیادہ سنے، وہ جب بھی کسی سے ملے تو سوالات کرکے اس سے معلومات لینے کی کوشش کرے۔

معلومات کا خزانہ، ہر طرف اور ہر جگہ موجود ہے۔مگر وہ صرف اس شخص کے حصہ میں آتا ہے جو اس کو لینے کے  آداب کو جانتا ہو۔

۔

اس سنت سے معلوم ہوا کہ دوسروں سے تعاون لینے میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق کرنا درست نہیں۔اس طرح کے تعاون کے معاملے میں اہیلت دیکھی جائے گی نہ کہ رشتہ اور مذہب۔

رسول اللہ ﷺ نے یہی پالیسی ہمیشہ اختیار کی۔مثال کے طور پر بدر کی لڑائی کے بعد سترکی تعداد میں غیرمسلم گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔یہ لوگ اس زمانہ کے لحاظ سے پڑھے لکھے تھے۔چنانچہ آپ نے اعلان کیا کہ ان سے جو شخص مدینہ کےدس بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے  اس کو ہم رہا کردیں گے۔اس طرح گویا اسلام کی تاریخ میں خودرسول اللہ  کے حکم سےجو پہلا اسکول کھولا گیا اس کے تمام کے تمام ٹیچرز غیر مسلم تھے۔

زندگی کےمعاملات میں اس اصول کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔کسی کام میں ساتھی اور کارکن کا انتخاب کرتے ہوئے اگر یہ دیکھاجائے کہ وہ اپنے مذہب کا ہے یا غیر مذہب کا یا اپنی برادری کا ہے یا غیر برادری کا، تو اس سے کام کا معیار ختم ہوجائےگا۔اس طرح کبھی کوئی کام اعلیٰ معیار پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔

صحیح طریقہیہ ہے کہ کام کو کام کے طورر دیکھا جائے۔یہ دیکھا  جائے کہ جو کام کرنا ہے اور اس کام کے لئے زیادہ بہتر اور زیادہ کارآمد لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میں میرٹ کی بنیاد پر زیادہ کارآمد کون لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میرٹ کی بنیاد پرافراد کا انتخاب کیا جائے نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔

میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کرنے سے اصل کام کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور جب کسی اورچیز کو انتخاب بنایا جائے تو اسی چیز کو فروغ حاصل ہوگا جس کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں