عورت کا حصہ
ہ بات عام سا مسلمان بھی جانتا ہے کہ اسلام نے عورت پر یہ بڑی مہربانی کی ہے کہ اسے وراثت کا حق دار ٹھہرایا ہے ورنہ اسلام سے قبل کے مذاہب اور آج بھی دنیا کے اکثر مذاہب میں عورت کو وراثت سے محروم رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام دشمنوں کی طرف سے دانستہ طور پر یہ اعتراض بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے جس سے بعض سادہ لوح مسلمان بھی شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے وراثت میں مرد کے لیے عورت سے دگنا حصہ دگنا حصہ کیوں مقرر کیا ہے؟ حالانکہ عورت کمزور ہوتی ہے؟ وہ کمانے والے بھی نہیں ہوتی؟
تو پھر بظاہر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کا حصہ ڈبل ہوتا مگر یہاں تو عورت کے مقابلے میں مرد کو ڈبل حصہ دیا جاتا ہے۔۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟اس کا جواب بڑا ہی سادہ ہے بشرطیکہ انسان سمجھنے کے لیے آمادہ ہو ۔۔۔ فی الحال یہ چند حکمتیں دیکھ لیں جس سے واضح ہو جائے گا کہ اسلام نے وراثت کی تقسیم جو بتائی ہے وہ عین عدل و انصاف ہے۔
پہلی حکمت: اسلام نے عورت کو کمانے کی ذمہ داری نہیں سونپی بلکہ اس کے تمام اخراجات کی ذمہ داری مردوں پر ڈالی ہے چاہے وہ مرد اس کا والد ہو ، بھائی ہو یا شوہر یا بیٹا ہو وغیرہ اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کہ جب اس کے تمام اخراجات مرد پورے کریں گے تو اسے اگر وراثت میں مرد کے مقابلے میں کم حصہ دیا گیا تو یہ اس پر کسی طرح بھی ظلم نہیں ہے۔
دوسری حکمت: اسلام نے عورت کو کسی اور پر مال خرچ کرنے کی ذمہ داری بھی نہیں ڈالی۔۔ جبکہ مرد کے ذمہ تو بہت سے اخراجات ہیں ، اپنی بیوی کے اخراجات ، والدین کے اخراجات اور اولاد وغیرہ کے اخراجات۔۔ اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس نے دوسروں پر بھی خرچ کرنا ہے اس کا حصہ زیادہ ہو اور جس پر دوسروں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے اس کے لیے کم حصہ ہو. تیسری حکمت: مرد کے اخراجات عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں
جیسے کہ دوسری حکمت کے تحت عرض کیا گیا اس لیے ہونا یہی چاہیے کہ اس کا حصہ زیادہ ہو چوتھی حکمت: مرد عورت کو مہر دینے ، مکان فراہم کرنے اور کھانے و پہننے کے تمام اخراجات دینے ہوتے ہیں جبکہ عورت پر مرد کو مالی طور پر کچھ دینے کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی پانچویں حکمت: بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور بچوں اور خود بیوی کے علاج معالجے کا خرچہ سب مرد نے اٹھانا ہوتا ہے، عورت نے نہیں۔ اس لیے ان سب باتوں کا واضح تقاضا ہے کہ وراثت میں مرد کو حصہ عورت سے زیادہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا فیصلہ ہے.
اس کو ایک مثال سے سمجھیں : ایک شخص فوت ہوا اس کے وارث فقط دو ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔۔ اس شخص نے وراثت میں تیس ہزار روپے چھوڑے۔۔ اب تقسیم کے مطابق بیٹے کو بیس ہزار اور بیٹی کو دس ہزار روپے ملے. اب والد کی وفات کے بعد دونوں نے نئی زندگی شروع کرنی ہے۔۔ مثلا دونوں پہلے غیر شادی شدہ تھے اور اب وہ دونوں شادی کا انتظام کرتے ہیں
اب بیٹا جب شادی کرے گا تو وہ شادی کے اخراجات بھی کرے گا اور بیوی کو مہر بھی دے گا فرض کریں اگر فقط بیوی کا مہر ہی بیس ہزار ہو تو اس بیٹے کو وراثت میں ملی ساری رقم فقط ایک معاملے میں خرچ ہو گئی جبکہ اْدھر بیٹی جب شادی کی طرف بڑھے گی تو اس کا خرچہ کیا ہو گا؟ الٹا سے مہر وغیرہ میں خاوند کی طرف سے خرچ ملے گا۔
فرض کریں اسے خاوند کی طرف سے بیس ہزار روپے ملے تو اب یہ بیس اور پہلے والے دس ملا کر اس کے پاس تیس ہزار ہو گئے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ بیٹا بیچارہ پہلے قدم پر ہی بیس ہزار سے ہاتھ دو چکا ہے اور ا?گے کے سارے اخراجات ابھی رہتے ہیں اس سے دیکھ لیں کہ اسلام کی طرف سے وراثت کی تقسیم بالکل عدل و انصاف پر مبنی ہے اور خاص کر عورت کے لیے تو سراسر نفع ہی ہے ہمارے پیج کو وزٹ کرنے کا شکریہ اگر آپکو کوئی شکایت ہے تو کمینٹ سیکشن میں ضرور بتائیے