فطری زندگی
ایک بار میں ایک صاحب کے گھر پر ان سے ملنے کے لئے گیا وہاں ان کے چار چھوٹے بچے، دو لڑکی، دو لڑکا،کھیل رہے تھے۔میںن ے وہاں دیکھا کہ وہ بار بار اپنے والد سے ایک دوسرے کی شکایت کرتے ہیں، اس نے مجھے مار دیا، اس نے میرا کھلونا لے لیا، اس نے مجھے دککیل دیا، اس نے مجھے ایسا کہ دیا، وغیرہ۔ان شکایتوں کے باوجود وہ سب مل کر کھیلتے رہے، ان کے باہمی تعلق میں پھر بھی کوئی فرق نہیں آیا۔
شکایتوں کے باوجود ان کی باہمی محبت کیوں باقی رہی، اس کی وجہ خونی تعلق ہے، وہ سب بھائی اور بہن تھے، وہ ایکد وسرے کے ساتھ خون کا رشتہ رکھتے تھے۔یہ خونی تعلق شکایتوں کے اوپر غالب رہتا تھا۔اختلاف کے باوجود وہ انہیں آپس میں جوٹے رکھتا تھا۔
یہ فطرت کی ایک نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ دنیا میں آدمی کو کسی طرح رہنا چاہئے۔ دنیا میں لوگوں کو اس طرح رہنا چاہئے کہ ان کے درمیان اختلاف اور شکایت کی صورتیں پیدا ہو ، اس کے باوجود وہ محبت کے ساتھ مل جل کر زندگی گزاریں۔
دنیا میں ایسا بہرحال ہوگا کہ جب لوگ مل جل کر رہیں گے تو ایک کو دوسرے سے شکایت پیدا ہوگی۔شکایت کے واقعات سے خالی زندگی اس دنیا میں ممکن نہ۔ایسی حالت میں جو چیز مطلوب ہے وہ یہ نہیں کہ انسانی سماج شکایت کے واقعات سےخالی ہوجائجائے۔بلکہ اصل مطلوب یہ ہے کہ شکایت کو نفرت تک پہنچنے سے بچایا جائے۔
بھائی بہن کے معاملہ میں جو چیز شکایت کو نفرت تک پہنچنے سے روکتی ہے وہ خونی تعلق ہے۔اور عام انسان کے لئے اخلاقی اصول اسی روک کا کام کرتا ہے، خونی تعلق ایک طبعی تقاضا ہے، اس لئے اس کے اوپر کوئی ثواب یا انعام نہیں ، مگر اخلاقی اصول کو آدمی خود اپنے ارادہ سے اختیار کرتا ہیے، ایسا آدمی خود اپنے اختیار اپنے آپ کو ایک ڈسپلن میں باندھتا ہے، اس لئے جو آدمی اس اخلاقی ڈسپلن کا ثبوت دے اس کے لئے بہت بڑا انعام ہے، دنیا میں بھی اور آخرت کی ابدی زندگی میں بھی۔