لڑکا اپنی بیوی کو کہتا تمہاری قیمت صرف ایک ریال ہے
لڑکی کا باپ بہت خوش تھا کہ اچھے خاندان سے اس کی بیٹی کے لیے رشتہ آ یا ہے۔ لڑ کے میں ہر وہ خوبی تھی جس کی تمنا کی جا سکتی ہے۔ انکار کی تو وجہ بنتی ہی نہیں تھی۔ لہٰذا یہ رشتہ قبول کر لیا گیا بات جب حق مہر کی چلی تو لڑ کی کے باپ نے کہا کہ پیسے کی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں تا ہم رسماً میری بیٹی کا حق مہر صرف ایک ریال ہو گا ۔
معاملات طے پائے تو شادی کی تاریخ مقرر کر کے اس فریضہ کو سر انجام دے دیا گیا لڑکی بھی کسی معاملے میں کم نہ تھی ۔خوبصورت و خوب سیرت، تعلیم یافتہ، گھر گر ہستی کے ہر فن میں ماہر جلد ہی اس نے اپنے سسرال کے ہر فرد کو اپنا گروید ہ بنا دیا گو یا دونوں گ۔ھرانے ہی اپنی اپنی خوش قسمتی پر رش۔ک کر تے تھے۔میاں بیوی کے درمیان الفت و محبت کا رشتہ روز بروز گہرے سے گہ۔را اثر ہوتا چلا گیا ۔ایک دن پیپسی کی بوتل پیتے ہوئے نجانے خاوند کے ذہن میں کیا شیط۔ان سما یا کہ بیوی کو کہنے لگا جانتی ہو تمہاری قیمت اور اس پیپسی کی بوتل کی قیمت ایک ہی ہے۔
طن۔ز تو بہت گہرا اور صدمہ دینے والا تھا۔ مگر بیوی نے ان سنی کر دی کہ اگر بات زبان سے پھ۔سل کر نکلی ہے تو اس کو یہیں ختم کر دیا جائے مگر خاوند کی تو یہ عادت ہی بن گئی۔ کہ جب بھی پیپسی کو بو تل خرید تا تو کسی طرح بھی طن۔ز کی کوئی صورت نکال ہی لیتا۔ کبھی کہتا کہ اگر میری تم سے شادی نا ہوتی تو میں ایک اور پیپسی خرید پا تا اور کبھی کہتا کہ میری پیپسی کی بو تل کا نق۔صان کر انے والی لڑکی بہت ہی سمجھدار اور حالات سے سمجھو تا کرنے والی تو ضرور تھی مگر ایک دن اس کا صبر جواب ہی دے دیا ۔اپنے خاوند سے کہاکہ میں اپنی امی سے ملنے کے لیے اداس ہوں۔
وہ اسے اس کے گھر لے جائے خاوند کو اس بات پر کوئی اعت۔راض نہیں تھا۔ فوراً ہی تیار ہو کر چ۔ل پ۔ڑ ے۔ اپنے خاوند کو بیٹھک میں چھوڑ کر لڑکی اندر اپنی ماں کے پاس گئی۔ اور پھ۔۔وٹ کر رو پ۔ڑی کہ تم نے میرا حق مہر اتنا کم مقرر کر کے میری قیمت گ۔را دی ہے اور اب میرا خاوند مجھے اس طرح ذلی۔ل کر رہا ہے ۔ اس کی ماں نے کہا کہ ابھی تیرا باپ آتا ہے۔ تو میں اسے بتاتی ہوں مگر لڑکی کا اصرار تھا کہ وہ اپنے معا ملات خراب نہیں کر نا چاہتی اس لیے اس کے والد کو خبر نہیں ہونی چاہیے۔ مگر اس کی ماں نے کہا کہ نہیں یہ غلطی تیرے باپ نے کی ہے۔ اور کل اپنے والدین کے ساتھ دوبارہ آئے۔
تا کہ سب لوگ مل بیٹھیں ۔ لڑ کا بخ۔وشی واپس چلا گیا دوسرے دن لڑ کا اپنے والدین کے ساتھ جب پہنچا تو لڑکی کے والد نے تین پیپسی کی بو تلیں سب کے سامنے رکھیں اور کہا کہ یہ میری طرف سےآ پ کے لیے دعوت ہے لڑ کے کے والدین تو کچھ نا سمجھے مگر لڑ کے کو اندازہ ہو گیا۔کہ بات شاید کچھ اور ہی ہے۔ لڑکی کا باپ بو لا کہ تم نے میری بیٹی کا حق مہر ایک پیپسی کی بو تل مقرر کیا تھا جب کہ میں تمہیں تین بو تلیں پلا رہا ہوں یہ بو تلیں پیو اور میری بیٹی کو ط۔لاق دے کر چلے جاؤ مجھے تم لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا۔
لڑکی کا خاوند تو بے ہ۔وش ہونے کے قریب تھا اور اس کے والدین کو جب سارے معاملے کی سمجھ آئی تو بھی لڑ کے پر بہت ن۔اراض ہوئے کہ اس نے ایسی ب۔ری حرکت ک۔یوں کی۔ جب معاملے کو سلجھانے کی بات چلی تو لڑکی کا باپ بو لا کہ اگر میری بیٹی کو لے کر جا نا ہے تو اس کا مہر تین لا کھ ریال ہو گا جا کر لے آئیے اور میری بیٹی کو لے جا ئیے ۔ورنہ نہیں کیوں کہ مطا لبہ اتنا نا منا سب نہیں تھا۔ اور بات بھی معافی و صلح و صفائی سے آگے گ۔زر چکی تھی ۔اس لیے یہ سب لوگ پیسوں کے انتظام کا کہہ کر ادھر سے اُٹھ آئے۔ اور پھر چند دنو ں کے بعد حق مہر تین لاکھ ریال دے کر لڑکی کو لے آئے۔