ماسک اور غبارے بیچنے والے بچے ہوٹل کے سامنے بڑی گاڑیوں سے اترنے والوں کو حسرت سے دیکھتے تھے۔۔ ایک شخص نے کیسے غریب بچوں کو کھانا کھلایا جس سے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے
“انکل دعوت میں تو صاف ستھرے اچھے کپڑے پہن کر جاتے ہیں“
یہ کہنا ان غریب ماسک اور غبارے بیچنے والے بچوں کا ہے جنھیں ایک نیک دل شخص نے اپنی خوشیاں بانٹنے کے لئے مہنگے ہوٹل میں دعوت دی۔ ان شخص کا نام مخدوم عتیق الرحمان ہے اور یہ ایک سماجی کارکن ہیں۔ اپنی فیس بک پوسٹ میں عتیق لکھتے ہیں کہ “ہمارے آج کے مہمان ماسک اور غبارے بیچنے والے وہ بچے تھے جو بڑی گاڑیوں سے اتر کر بڑے ریسٹورنٹس میں داخل ہونے والوں کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ موسم اچھا تھا ان بچوں کے اعزاز میں اُس بڑے ریسٹورنٹ میں پارٹی رکھی جسے یہ بچے گزرتے وقت حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے“
بچوں کی مہمان نوازی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے عتیق کہتے ہیں کہ “پسندیدہ کھانوں اور مشروبات سے ہم نے اپنے ان معزز مہمانوں کی تواضع کی۔ ان میں سے تین بچے جن کا گھر نزدیک تھا بھاگتے ہوئے گھر گئے اور نہا دھو کے نئے کپڑے پہن آئے۔۔
میں نے پوچھا تو مسکرا کے بولے انکل: دعوت میں لوگ صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں ناں انکا یہ خیال تھا شاید میلے کپڑے والوں کو بڑے ریسٹورنٹ میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میلے کپڑے والوں کے لیے صاف دل میں بڑی جگہ ہوتی ہے۔
پوسٹ کے آخر میں عتیق یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنی خوشیاں ایسے بچوں کے ساتھ منائیں جو محفل کا ایک ایک لمحہ انجوائے کرسکیں اور کھ کر جی سکیں۔ بلاشبہ عتیق نے ایک اہم اور خوبصورت پیغام دیا ہے کہ ہمیں خوشی کے لمحات پہلے سے پیٹ بھرے اور خوشحال افراد کے بجائے ایسے غریب افراد کے ساتھ بانٹنے چاہئیں جن کو کم ہی ایسے مواقع نصیب ہوتے ہیں