ماضی کا ایک صفحہ

انگریزی روزنامہ ٹائمس آفس انڈیا (جاری شدہ 1838) میں روزانہ اس کے قدیم فائل سے کوئی ایک شائع شدہ خبر نقل کی جاتی ہے ۔ اسکے شمار 18 جون 1993 میں اس کالم کے تحت وہ خبرنقل کی گئی ہے جو اخبار مذکورہ کے شمار 31 مئی 1875 میں چھپی تھی۔اس خبر کا عنوان تھا۔۔۔۔مزید یورپی کا قبول اسلام:

More Europeans Convert to Islam

اس خبر میں بتایا گیا کہ بنگلور میں یورپی لوگ اسلام کرتے رہتے ہیں۔ اسکے مطابق 9 مئی 1875 کی صبح ایک ٹرین بنگلور اسٹیشن پر رکی تو اس سے چار یورپی افراد شامل ہوئے۔وہ اسٹیشن کے باہر آکر کینٹونمنٹ کے علاقہ میں جنرل بازار کی ایک مسجد میں پہنچے۔ وہاں بہت سے مسلمانوں نے نہاہیت گرم جوشی کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔وہاں ان کی ملاقات ایک مولوی سے کرائی گئی جو حیدر آباد سے بلایا گیا تھا۔اس مولوی نے کلمہ پڑھا کر ان چاروں کو اسلام میں داخل کیا۔ان کے نام کی تفصیل یہ ہے:

Captain J. Colin Campbell, 31        Muslim Name: Mahmood Abdullah

Francis O’Neill, Irish Sailor, 20                              Abdool Lateef

W. Elder, Irish Sailor, 21              Abdoolah

F. White, German Sailor, 20         Abdoos Salam

خبرمیں بتایا گیا ہے کہ ان نومسلوں میں سے دوآدمی اس کے بعد السور (Ulsoor) گئے۔ وہاں انہوں نے ایک انگریز اور سیر کے پندرہ سالہ لڑکے کو آمادہ کیا کہ وہ بھی انہیں کی طرح اس کو اسلام میں داخل کرنے کو راضی کرکے وہ اسے ایک مسجد میں لے گئے، مگر مسجد کے ذمہ داروں نے اس کو اسلام میں داخل کرنے سے انکار کردیا۔انہو ں نے کہا کہ یہ لڑکا بھی نابالغ ہے، اگر اس کے باپ کو معلوم ہوا تو وہ ہم کو پریشان کرے گا۔ مگر نومسلموں نے اس کی پروا نہیں کی۔ اس کے بعد انہوں نے خود ہی لڑکے کا بال مونڈا اور اس کو محمڈن مذہب میں داخل کرلیا۔

انیسویں صدی کے مسلم رہنماوں نے انگریزوں کو اسلام کا دشمن قرار دے کر ان سے جنگ چھیڑ رکھی تھی۔مگر اسلام دین فطرت ہے اگر نفرت کا پردہ ہٹادیا جائے تو ہر ایک کو اسلام اپنے دل کی آواز محسوس ہونے لگے گا۔

موجودہ زمانہ میں اسی کو اسپرٹ آف انکوائری کہا جاتا ہے۔سائنسہ نقطئہ نظر سے اس کی بے حداہمیت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ زیادہ بڑے عالم بنتے ہیں جن کے اندر یہ متجسانہ اسپرٹ موجود ہو۔ اس قسم کی اسپرٹ ہر ایک کے لئے انتہائی ضروری ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا کوئی اونچی سطح کا آدمی۔

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سننے سے زیادہ سنانے کے شوقین ہوتے ہیں۔مگر اس قسم کا مزاج علم کی ترقی میں ایک مستقل روکاوٹ ہے ایسے لوگ کبھی زیادہ بڑی علمی ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔جب آپ بولتے ہیں تو اُس وہیں رہتے ہیں جہاکہ آپ ہیں۔مگر جب آپ سنتے ہیں تو آپ اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔صحیح علمی مزاج یہ ہے کہ آدمی بولنے سے زیادہ سنے، وہ جب بھی کسی سے ملے تو سوالات کرکے اس سے معلومات لینے کی کوشش کرے۔

معلومات کا خزانہ، ہر طرف اور ہر جگہ موجود ہے۔مگر وہ صرف اس شخص کے حصہ میں آتا ہے جو اس کو لینے کے  آداب کو جانتا ہو۔

۔

اس سنت سے معلوم ہوا کہ دوسروں سے تعاون لینے میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق کرنا درست نہیں۔اس طرح کے تعاون کے معاملے میں اہیلت دیکھی جائے گی نہ کہ رشتہ اور مذہب۔

رسول اللہ ﷺ نے یہی پالیسی ہمیشہ اختیار کی۔مثال کے طور پر بدر کی لڑائی کے بعد سترکی تعداد میں غیرمسلم گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔یہ لوگ اس زمانہ کے لحاظ سے پڑھے لکھے تھے۔چنانچہ آپ نے اعلان کیا کہ ان سے جو شخص مدینہ کےدس بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے  اس کو ہم رہا کردیں گے۔اس طرح گویا اسلام کی تاریخ میں خودرسول اللہ  کے حکم سےجو پہلا اسکول کھولا گیا اس کے تمام کے تمام ٹیچرز غیر مسلم تھے۔

زندگی کےمعاملات میں اس اصول کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔کسی کام میں ساتھی اور کارکن کا انتخاب کرتے ہوئے اگر یہ دیکھاجائے کہ وہ اپنے مذہب کا ہے یا غیر مذہب کا یا اپنی برادری کا ہے یا غیر برادری کا، تو اس سے کام کا معیار ختم ہوجائےگا۔اس طرح کبھی کوئی کام اعلیٰ معیار پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔

صحیح طریقہیہ ہے کہ کام کو کام کے طورر دیکھا جائے۔یہ دیکھا  جائے کہ جو کام کرنا ہے اور اس کام کے لئے زیادہ بہتر اور زیادہ کارآمد لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میں میرٹ کی بنیاد پر زیادہ کارآمد کون لوگ ہوسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایسے معاملات میرٹ کی بنیاد پرافراد کا انتخاب کیا جائے نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔

میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کرنے سے اصل کام کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور جب کسی اورچیز کو انتخاب بنایا جائے تو اسی چیز کو فروغ حاصل ہوگا جس کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں