ماہرین آثار قدیمہ نے حضرت لوطؑ کا گھر دریافت کر لیا
! اردن میں مقامی ماہرین نے متعلقہ حکومتی اداروں کے تعاون سے ملک کے جنوب میں واقع علاقے جنوبی اغوارمیں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کے انکشاف کا اعلان کیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اردن میں ٹورسٹ گائیڈز ایسوسی ایشن کے سربراہ محمد حماد نے باور کرایا کہ حالیہ انکشاف اردن کی ریاست کی دوسری صدی کی اہم ترین دریافت میں شمار ہو رہی ہے۔ ماہرین نے اس انکشاف کو ثابت کرنے کے لیے فلکیاتی ، ارضیاتی اور جغرافیائی دلائل کا سہارا لیا۔ علاوہ ازیں آثاریاتی کھدائی اور علاقے میں موجود
راستوں کو بھی خاص طور پر زیر غور رکھا گیا۔ حاصل ہونے والے شواہد میں بائبل میں مذکور تحریری تختیاں، ایبلا اور اکادیہ کی تختیاں، رومی راستے اور قریش کاایلاف کا راستہ وغیرہ شامل ہیں اس قوم کو بدترین فحاشی اور بدکاری کی دلدل میں غرق کر رکھا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن اُنہوں نے خود ہی فرمائش کر دی۔ کہ’’ اے لوطؑ! اگر تم سچّے ہو۔ تو اپنے رَبّ سے کہو کہ ہم پر عذاب نازل کر دے‘‘ (سورۂ عنکبوت۔29)۔ یہ بدبخت لوگ اگر مجھ سے مشورہ کرتے، تو مَیں اُنہیں کبھی عذاب مانگنے کا مشورہ نہ دیتا، کیوں کہ مجھے علم تھا کہ رَبِّ ذوالجلال کی ذات کو چیلنج کرنے کے کیا نتائج بھگتنا پڑیں گے اور پھر وہی ہوا، جس کا مجھے ڈر تھا۔ ایک صبح مَیں نے دیکھا کہ حضرت جبرائیلؑ کے پَروں نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا ہے۔ زمین پر رات کا سماں ہے، پھر اچانک جبرائیلؑ نے اپنے ایک پَر کی نوک سے اس بستی کو اُکھیڑا اور اپنے بازو میں رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے۔ حتیٰ کہ آسمان والوں نے ان کے کتّوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سُنیں، پھر اس بستی کو اُلٹا کر زمین پر دے مارا۔ قومِ لوط دُنیا کی پانچ حَسین ترین بستیوں میں آباد تھی، جہاں اُنہیں ہر قسم کی نعمت میّسر تھی اور یہ نہایت خوش حال زندگی بسر کرتے تھے۔ اللہ عزّوجل نے اُن کی خُوب صُورت بستیوں کو ایک انتہائی بدبودار اور سیاہ جھیل میں تبدیل کر دیا، جس کے پانی میں کوئی بھی جان دار زندہ نہیں رہ سکتا، اسی لیے اُسے’’ بحرِ مُردار‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’ ہم نے اس بستی کو صریح عبرت کا نشان بنا دیا، اُن لوگوں کے لیے، جو عقل رکھتے ہیں‘‘ (سورہ عنکبوت۔35)۔ قرآنِ پاک میں حضرت لوطؑ اور اُن کی قوم کا چالیس مقامات پر ذکر آیا ہے