مجھے سینے پر سُلاتے تھے لیکن خود قبر میں جا کر سوگئے– ایک بیٹے کے والد کے لیے وہ الفاظ جنہیں سننے والا ہر شخص رو پڑے

بیٹیاں ہی نہیں بیٹے بھی باپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتے لیکن والد کے لیے محبت اور شفقت ایک بیٹے کے دل میں بھی اس قدر ہی ہوتی ہے جتنی کہ بیٹی کے دل میں ہوتی ہے۔ بیٹے اپنے باپ کا بازو ہوتے ہیں جو ساری زندگی اپنے والد کو سہارا دیتے ہیں۔ جوں بیٹے جوان ہوتے ہیں والد کی فکر کم سے کم ہو جاتی ہے کہ اب مجھے معاش کی فکر نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ میرا بیٹا جوان ہوگیا ہے۔ جوان بیٹے اپنے باپ کا چہرہ دیکھ کر ہی بھانپ لیتے ہیں کہ والد ان سے کب کیا چاہتے ہیں۔ فرمانبردار بیٹے کسی بھی گھر کو کم تنخواہ میں بھی بخوشی چلانا جانتے ہیں۔ باپ بیٹے کا یہ رشتہ بہت طاقتور ہوتا ہے۔ لیکن جب باپ اس دنیا میں نہیں رہتے تو بیٹے اکیلے رہ جاتے ہیں۔

ایک بیٹا جب اپنے کندھوں پر باپ کا جنازہ اٹھاتا ہے، انہیں غُسل دلواتا ہے اور قبر میں اتار کر آتا ہے تو وہ راتوں نیند کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہوتا ہے لیکن وہ رو کر آواز نکال کر کسی سے اپنے غم کا اظہار نہیں کرسکتا کیونکہ کوئی اس کی آہ وزاری سننے والے نہیں ہوتا، بلکہ اسی کو اپنی ماں اور بہن کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے، ان کو بھی دلاسے دینے ہوتے ہیں ظاہر ہے ایک مرد تو سب کچھ برداشت کرلیتا ہے مگر ایک عورت اس کے مقابلے کم ہی سہہ پاتی ہے۔

ایک بیٹے نے اپنے والد کے لیے نظم پڑھی جس میں وہ کہتے ہیں کہ: ” آپ گھر میں کہاں پر چھپاتے تھے غم، والدِ محترم، والدِ محترم، اپنے سینے پہ مجھ کو سلاتے تھے آپ، اور خود جا کر مٹی میں ہی سوگئے ۔ میرے بچپن کے دن وہ سنہرے سے دن، خواب جیسے تھے اور خواب ہی ہوگئے۔ دل رباں رباں دل نشیں، ہر گھڑی ہر قدم، ۔ دل رباں رباں دل نشیں، ہر گھڑی ہر قدم والدمضبوط تھے، آپ کے بعد وہ سہتا وہ سارے ستم والدِ محترم جو چھپاتے تھے آپ ہم سب سے۔ ہر کڑی دھوپ میں سائباں آپ تھے، ہر اندھیرے میں ایک کہکشاں آپ تھے۔۔ جگمگاتے ہوئے مسکراتے ہوئے بس دعا ہی دعا مہرباں آپ تھے، آپ کے پاؤں چھو لوں خدا کی قسم، والد ِ محترم، والدِ محترم ۔۔ یہ خوبصورت کلام مبارک صدیق صاحب کا ہے۔ لیکن اس خوبصورت کلام کو پڑھنے والے کون ہیں اور یہ کس کی آواز ہے اس سے متعلق کچھ بتایا نہیں جا سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں