معاملات زندگی کے لئے انتہائی عبرت ناک واقعہ۔۔۔
قارئین آج کے اس کالم میں ہم آپ کو مسلمانوں کے دوسرے حلیفہ امام مالک کی زندگی کا انتہائی عبرت ناک واقعہ سنائیں گے۔امام مالک 93 ہجری میں جلیل القدر صحابی جناب حضرت انس کے گھر پیدا ہوئے۔ایک دن مدینہ منورہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، جسے سن کر لوگ حیران رہ گئےاور شدید خوف کا شکار ہو گئے ۔
بات کچھ اس طرح تھی کے مدینہ منورہ میں ایک عورت کا انتقال ہوگیا۔ جب پیشہ ور غسالہ مرنے والی کو نہلا رہی تھی تو اچانک اس نے قریب کھڑی ہوئی خواتین سے کہا کہ مرحومہ ایک بدکار عورت تھی۔ ابھی غسالہ کے الفاظ کی گونج حتم بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے چیک کر رہ گیا۔ چند لمحوں تک مرحومہ کی رشتے دار خواتین اس راز کو نہ سمجھ سکیں
مگر جب انتہائی کوشش کے بعد بھی غسالہ کا ہاتھ ہدن سے علیحدہ نہ ھو سکا تو پھر ہر طرف ایک ہلچل سی مچ گئی۔ حاضرین نے اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے حیرت ناک مناظر دیکھے تھے گر یہ واقعہ ان سب سے جدا تھا۔ لوگ جنازے کو بھول کر غسالہ کی جانب دیکھنے لگے جس کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔
اس ذیل میں تمام بڑے علمائے کرام سے رجوع کیا گیا گر کوئی ایک شخص بھی اس عجیب وغریب مسئلے کا حل نہیں کر سکا۔ وقت تیزی سے گزرتا جارہاتھا اور میت کی تدفین میں تاخیر ہوتی جاری تھی۔ غسالہ کے ساتھ مرحومہ کے عزیز واقارب بھی سخت پریشان تھے۔ سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ اگر غسالہ کا ہاتھ الگ نہ ہو سکا تو پھر جنازے کو کسی طرح دفن کیا جاسکے گا۔
تمام چہرے استغفار کی ایک علامت بن کر رہ گئے تھےمگر وہاں ان کے سوالوں کا جواب دینے والا کوئی موجود نہ تھا۔ یہ منظر دیکھ کر بعض لوگوں کے ذہن اس قدر منتشر ہو گئے کہ وہ غسالہ کا ہاتھ کاٹنے کی تجویز پیش کرنے لگے۔ اب صرف اسی طرح میت کی تدفین مکن تھی۔ متعلقہ افراد کے حلقے میں یہ تجویز زیر بجٹ آئی تو اپنے لرزه حیز انجام کو قریب دیکھ کر غسالا زار و قطار رونے لگی۔
جب صورت حال پر کسی طرح بھی قابو نہ پایا جاسکا تو انسانی ہجوم سے ایک آواز ابھری۔”کیا تم لوگوں نے اس سلسلے میں امام مالک بن انس سے رجوع کرلیا؟ جن کی عمریں فقہ کے مسائل حل کر تے کرتے گزر گئیں وہ بھی کوئی جواب نہ دے سکے تو پھر ایک نوجوان کے ذہن کی آزمائش کیا معنی رکھتی ہے؟“ کہنے والے نے دوبارہ کہا۔ عقل عمر کے پیمانے سے معتبر نہیں ہوتی۔
کیا عجب ہے کہ وہ نو جوان فقیہ تمہاری ساری الجھنوں کو دور کر دے۔مجمہ خاموش ہوگیا۔ اس شخص کی بات تسلیم کی گئی۔ پھر کچھ معززین شهر حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اپنا عجیب وغریب مسئلہ بیان کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگے۔حضرت امام مالک بہت دیر تک غور وفکر کرتے رہے، پھر فرمایا۔ غسالہ نے مرحومہ کو یقینا کوئی ایسا آزار پہنچایا ہے جسے خدا پسند نہیں کرتا ۔ دریافت کرو کے مرحومہ کے ساتھ اس کا سلوک کیسا تھا؟ یہ وه عذاب ہے جسے قدرت دنیا میں ظاہر کرنا چاہتی ہے۔ لوگ اٹھ کر چلے گئے اور جب انھوں نے غسالہ کو یہ بات بتائی تو وه زارو و قطار رونے گی اور فوری اعتراف کر لیا کہ اس نے مرحومہ پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی۔
حضرت امام مانگ سے دوبارہ رجوع کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔ “مرنے والی ایک پارسا خاتون تھی خدا کی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ اہل دنیا کی نظر میں اس کی پاکسازی داغدار ہو جائے۔” اس لیے غسالہ کو تماشہ بنادیا گیا ہے تا کہ لوگ عبرت حاصل کرسکیں۔ اب اس تہمت طراز عورت کے جسم پر سو کوڑے لگاؤ تا کہاس کا ہاتھ الگ ہو جائے گا۔
پھر ایسا ہی کیا گیا۔ شرعی علم کے مطابق غسالہ کے سو کوڑے لگائے گئے ۔ جیسے ہی سزا کی تکمیل ہوئی اس کا ہاتھ مرحوم خاتون کے جسم سے علیحدہ ہوگیا۔ حضرت امام مالک کے اس فتوے پر بڑے بڑے اہل دانش حیراں تھے اور اس کے ساتھ ہی تمام اہل عرب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والا زمانہ اسی نوجوان کے فضل و کمال سے تعبیر ہوگا اور پھر حقیت میں بھی ایسا ہی ہوا۔