ملک کا تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ گیا
اسلام آباد(آن لائن) درآمدات میں اضافے کے باعث ملک کا تجارتی خسارہ تاریخ کے بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے ،گزشتہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارہ 30 ارب 96 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں 48 ارب 66 کروڑ ڈالر کی بلند ترین
سطح پر پہنچ گیاہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مئی میں 800 سے زائد اشیا کی درآمدات پر پابندی کے باوجود تجارتی خسارہ خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے اوربڑھے ہوئے تجارتی فرق کے خلاف اتحادی حکومت کی کوششیں مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں جو کہ ایک سال پہلے کے 3 ارب 66 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں جون کے دوران 32.3 فیصد بڑھ کر 4 ارب 84 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جس کی بڑی وجہ برآمدات کے مقابلے درآمدات میں تقریباً دگنا اضافہ ہے، رپورٹس کے مطابق ختم ہونے والے مالی سال کا تجارتی خسارہ سال 18-2017 کے 37 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جس کی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق درآمدات سے تھی اس کے بعد کے برسوں میں تجارتی فرق 19-2018 میں 31 ارب 80 کروڑ ڈالر مالی سال 20-2019 میں 23 ارب 20 کروڑ ڈالر تک گر گیا تھا اور اس کے بعد مالی سال 21-2020 میں 30 ارب 80 کروڑ ڈالر رہا جبکہ سال 22-2021 میں مجموعی طور پر 48 ارب 66 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ختم ہونے والے مالی سال کے تجارتی خسارے کو بین الاقوامی منڈی میں تیل اور اشیا کی قیمتوں میں اب تک کے سب سے زیادہ اضافے نے بڑھایا ہے عالمی سطح پر اجناس کی قیمتیں بڑھنے کی باعث درآمدات میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے جبکہ برآمدات تقریباً ڈھائی ارب ڈالر سے 2 ارب 80 کروڑ ڈالر
ماہانہ پر رک گئی ہیں جو زیادہ تر نیم تیار شدہ مصنوعات اور خام مال کی ہیں۔مئی میں تجارتی خسارہ 4 ارب 4 کروڑ ڈالر اور اپریل میں 3 ارب 78 کروڑ ڈالر رہا دوسری جانب درآمدی بل 22-2021 کے دوران 43.45 فیصد بڑھ کر 80 ارب 51 کروڑ ڈالر ہوگی
جو ایک سال قبل 56 ارب 12 کروڑ ڈالر تھا۔صرف جون میں درآمدی بل گزشتہ سال کے اسی مہینے کے 6 ارب 28 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں بڑھ کر 7 ارب 74 کروڑ ڈالر تک پہنچ
گیا، جو 23.26 فیصد کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ جون کے دوران ماہانہ درآمدات میں 14.32 فیصد اضافہ ہوا، مئی میں درآمدی بل 6 ارب 77 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا
جبکہ اپریل میں یہ 6 ارب 67 کروڑ ڈالر رہا حکومت نے 19 مئی کو تقریباً 800 لگڑری اور غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔پاکستان اقتصادی سروے 22-2021 کے مطابق اشیا کے تمام بڑے گروپوں کی درآمدات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، زیر جائزہ مدت
کے دوران درآمدات میں زبردست اضافے میں متعدد عوامل نے بالخصوص عالمی سطح پر اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اہم کردار ادا کیا۔
درآمدات پر متفرق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ توانائی کا شعبہ درآمدات میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو اس عرصے کے دوران درآمدات میں سالانہ اضافے کا ایک تہائی حصہ ہے اسی طرح پاکستان میں درآمد کی جانے والی نان انرجی کموڈٹیز، جیسے خوردنی تیل (پام اور سویا بین)، چینی، چائے، کھاد
اور اسٹیل پر بھی قیمتوں کی وجہ سے دباؤ دیکھا گیا ہے رپورٹس کے مطابق ملک میں پہلی مرتبہ نہ صرف برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا بلکہ یہ 30 ارب ڈالر کی نفسیاتی رکاوٹ کو بھی عبور کر گیا،
اس سے قبل پاکستان کی برآمدات گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس سطح سے نیچے رہیں۔پاکستان کی برآمدات حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال میں 26.6 فیصد بڑھ کر 31 ارب 84 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں، جو کہ ایک سال قبل 25
ارب 16 کروڑ ڈالر تھیں۔اسی طرح جون میں برآمدات گزشتہ سال کے 2 ارب 75 کروڑ ڈالر سے 6.48 فیصد بڑھ کر 2 ارب 89 کروڑ ڈالر ہو گئیں.
مالی سال 21-2020 میں برآمدات 18 فیصد بڑھ کر 25 ارب 30 کروڑ تک پہنچ گئیں، جو اس سے پہلے والے سال کے 21 ارب 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ تھیں۔حکومت نے ختم ہونے والے مالی سال میں،
اجناس کے لیے سالانہ برآمدی ہدف 31 ارب 20 کروڑ ڈالر اور خدمات کے لیے ساڑھے 7 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا تھا۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق برآمدات میں تقریباً دو تہائی اضافہ ٹیکسٹائل سیکٹر خاص طور پر ہائی ویلیو ایڈڈ شعبے سے ہواہے۔